حضرت سخی سلطان باھوؒ کی سلطان التارکین سید محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی کو امانتِ الٰہیہ کی منتقلی
منتقلی امانتِ الٰہیہ اور حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے خلفاء کے متعلق ذکر کرنے سے پہلے امانتِ الٰہیہ Amanat e Elahiya اور خلافت کے متعلق تفصیل بیان کرنا ضروری ہے۔
امانتِ الٰہیہ کیا ہے؟
امانتِ الٰہیہ کے بارے میں قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِنَّا عَرَضْنَا الْاَمَانَۃَ عَلَی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَالْجِبَالِ فَاَبَیْنَ اَنْ یَّحْمِلْنَھَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْھَا وَحَمَلَھَا الْاِنْسَانُ ط اِنَّہٗ کَانَ ظَلُوْمًا جَھُوْلًا۔ (سورۃ الاحزاب۔72)
ترجمہ: ہم نے بارِ امانت (امانتِ الٰہیہ) کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا سب نے اس کے اٹھانے سے عاجزی ظاہر کی لیکن انسان نے اسے اٹھا لیا۔ بے شک وہ (اپنے نفس کے لیے) ظالم اور نادان ہے۔
فقرا کا ملین کے نزدیک اس امانت سے مراد حضور علیہ الصلوٰۃ ولسلام کی حقیقی وراثت اسمِ اللہ ذات یعنی امانتِ فقر (امانت الٰہیہ) ہے۔
جس انسان میں امانتِ الٰہیہ یاامانتِ فقر منتقل ہونا ہوتی ہے وہ اِذَا تَمَّ الْفَقْرُ فَھُوَ اللّٰہ (ترجمہ: جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے وہی اللہ ہے ) کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔
جب طالب یا سالک فقر کی انتہا بقاباللہ پر پہنچ جاتا ہے تو جملہ صفاتِ الٰہی سے متصف ہو کر ’’انسانِ کامل ‘‘ کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے اور وہی امانتِ الٰہیہ کا حامل ہوتا ہے ۔ اس کائنات کے کامل ترین انسان خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اللہ تعالیٰ کے مظہرِاُتم ہیں۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں اور دیگر تمام (فقرا کاملین) آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وسیلہ سے مراتب بمراتب اس مقام تک پہنچے۔ (عین الفقر)
انسانِ کامل ہی امانتِ الٰہیہ کا حامل اور اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے۔ سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا فرمان ہے:
جمعیت جو کہ لطفِ رحمن ہے انسانِ کامل کو نصیب ہوتی ہے۔ کامل انسان صرف انبیا اور فقرا ہیں۔ ( فضل اللقا)
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَلرَّحْمٰنُ فَسْئَلْ بِہٖ خَبِیْرًا۔ (سورۃ الفرقان۔59)
ترجمہ :وہ رحمن ہے سو پوچھ اس کے بارے میں اُس سے جو اس کی خبر رکھتا ہے ۔
انسانِ کامل اللہ تعالیٰ کا مظہر اور مکمل آئینہ بن جاتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوارِ ذات وصفات واسما و افعال کا اپنے اندر انعکاس کرتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی جمیع صفات سے متصف اور اس کے جملہ اخلاق سے متخلق ہوجاتا ہے ۔
فقر کی اسی منزل پر جب حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پہنچے تو آپ نے فرمایا:
فقر کی منزل پر بارگاہِ کبریا (حق تعالیٰ) سے حکم ہوا ’’تو ہمارا عاشق ہے۔‘‘ اس فقیر نے عرض کی ’’عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں ہے۔‘‘ پھر فرمایا ’’تو ہمارا معشوق ہے۔‘‘ یہ عاجز پھر خاموش ہوگیا تو حضرتِ کبریا کے انوارِ تجلی کے فیض نے بندے کو ذرے کی طرح استغراق کے سمندر میں مستغرق کر دیا اور فرمایا ’’تو ہماری ذات کی عین ہے اورہم تمہاری عین ہیں، حقیقت میں تو ہماری حقیقت ہے اور معرفت میں توہمارا یار ہے اور ’ھوُ ‘ میں یاھوُ کا راز ہے۔‘‘ (رسالہ روحی شریف)
یہاں ھوُ سے مراد ذاتِ حق تعالیٰ ہے اور یاھوُ سے مراد ’ ’ حقیقتِ محمدیہ‘‘ ہے اور ’’راز‘‘ سے مراد تکمیلِ باطن ،وصالِ الٰہی ہے یعنی مقامِ فنا فی اللہ بقا باللہ ہے جہاں پر انسان کامل ہو کر حاملِ امانتِ الٰہیہ کے مرتبہ پر فائز ہوتا ہے۔
’عقلِ بیدار‘ میں انسانِ کامل کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
چونکہ اللہ تعالیٰ کے نورِ مبارک سے جناب سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نور مبارک ظاہر ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام مخلوق کا ظہور ہوا اس لئے انسان کی اصل نور ہے اور عمل کے مطابق جب نفس، قلب اور روح تینوں نور بن جاتے ہیں اس کو انسانِ کامل کہتے ہیں۔ (عقلِ بیدار)
آپ رحمتہ اللہ علیہ اپنی کتاب نورالہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں:
پس انسانِ کامل کا وجود ایک طلسمات اور اسم ومسمٰی کا گنج معمہ ہوتا ہے۔
یہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے انسانِ کامل کے وجود کو طلسمات فرمایا ہے۔ انسانِ کامل ’ اسم (اللہ)‘ اور ’مسمٰی(ذاتِ الٰہی)‘ کو پالینے کا رازجانتا ہے۔ یہ ایک خزانہ (گنج) ہے اور جس طرح کسی خزانہ تک معمہ کو حل کرکے پہنچا جا سکتا ہے اسی طرح انسانِ کامل کو جاننا بھی ایک معمہ ہے۔ جو اس معمہ کو حل کرلیتا ہے وہی انسانِ کامل کی حقیقت تک پہنچتا ہے۔
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ انسانِ کامل کے بارے میں فرماتے ہیں:
چونکہ اسمِ اللہ ذات جامع جمیع صفات ومنبع جمیع کمالات ہے لہٰذا وہ اصل تجلیات وربّ الارباب کہلاتا ہے اور اسکا مظہر جو عین ثانیہ ہوگا وہ عبداللہ عین الاعیان ہوگا ۔ ہر زمانے میں ایک شخص قدمِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم پر رہتا ہے جو اپنے زمانے کا عبداللہ ہوتا ہے، اس کو قطب الاقطاب یا غوث کہتے ہیں جو عبداللہ یا محمدی المشرب ہوتا ہے۔ وہ بالکل بے ارادہ تحتِ امروقربِ فرائض میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کو جو کچھ کرنا ہوتا ہے اس کے توسط سے کرتا ہے۔
جیسا کہ قرآنِ پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَکُلَّ شَیْ ئٍ اَحْصَیْنٰہُ فِیْ ٓ اِمَامٍ مُّبِیْنٍ (سورۃیٰسٓ۔12)
ترجمہ :اور ہر چیز کو جمع کررکھا ہے ہم نے امامِ مبین میں ۔
اس آیت میں امامِ مبین سے مراد ’’ انسانِ کامل ‘‘ ہے اوراللہ تعالیٰ نے اپنے ہر امر، حکم اور اپنی پیدا کردہ کل کائنات کو ایک لوحِ محفوظ جو کہ انسانِ کامل کا دل ہے، میں محفوظ کررکھا ہے ۔ انسانِ کامل کا دل وہ جگہ ہے جہاں انوارِ ذات نازل ہوتے ہیں اور اس کی وسعت کا بیان واندازہ نہیں کیا جاسکتا ۔
لوح بھی توُ، قلم بھی توُ، تیرا وجود الکتاب
گنبدِ آبگینہ رنگ تیرے محیط میں حباب
(بالِ جبریل)
حضرت شیخ موید الدین جندی رحمتہ اللہ علیہ تفسیر روح البیان میں فرماتے ہیں :
اسمِ اعظم جس کا ذکر مشہور ہوچکا ہے اور جس کی خبر چار سو پھیل گئی ہے وہ حقیقتاً ومعناً عالمِ حقائق اور معنی سے ہے اور سورۃًو لفظاً عالمِ صورت والفاظ سے ہے۔ جمیع حقائقِ کمالیہ سب کی سب احادیث کا نام حقیقت ہے اور اس کے معنی وہ انسانِ کامل ہے جو ہر زمانہ میں ہوتا ہے یعنی وہ قطب الاقطاب اور امانتِ الٰہیہ کا حامل اللہ تعالیٰ کا خلیفہ ہوتا ہے اور اسمِ اعظم کی صورت ولیٔ کامل (انسانِ کامل) کی ظاہری صورت کا نام ہے ۔(صفحہ41، جلد اوّل)
حضرت سیدّ عبدالکریم بن ابراہیم الجیلی رحمتہ اللہ علیہ اپنی تصنیف’ انسانِ کامل‘ میں فرماتے ہیں :
وجودِ تعینا ت میں جس کمال پر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم متعین ہوئے ہیں کوئی شخص متعین نہیں ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اخلاق، احوال،ا فعال اور اقوال اس امر کے شاہد ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان کمالات میں منفرد ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم انسانِ کامل ہیں اور باقی انبیا واولیا اکمل صلوٰۃ اللہ علیھم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے ایسے ملحق ہیں جیسے کامل اکمل سے ملحق ہوتا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ وہ نسبت رکھتے ہیں جو فاضل کو افضل سے ہوتی ہے لیکن مطلق اکمل انسان حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات مبارک ہی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم بالاتفاق انسانِ کامل ہیں۔ (صفحہ379)
انسانِ کامل وہ ہے جو بمقتضائے حکمِ ذاتی بطور ملک واصالت اسمائے ذاتی وصفاتِ الٰہی کا مستحق ہو ۔ حق کیلئے اس(انسانِ کامل) کی مثال آئینے کی سی ہے کہ سوائے آئینہ کے کوئی شخص اپنی صورت نہیں دیکھ سکتا اورنہ انسان کیلئے ممکن ہے کہ سوائے اسمِ اللہ کے آئینہ کے، کہ وہ اس کا آئینہ ہے، اپنے نفس کی صورت دیکھ سکے اور انسانِ کامل بھی حق کا آئینہ ہے اس لئے حق تعالیٰ نے اپنے اوپر لازم کرلیا ہے کہ سوائے انسانِ کامل کے اپنے اسما وصفات کو کسی اور چیز میں نہ دیکھے۔(صفحہ391)
حقیقتِ محمدیہ ہر زمانہ میں اس زمانہ کے اکمل کی صورت میں اس زمانہ کی شان کے مطابق ظاہر ہوتی ہے ۔یہ انسانِ کامل اپنے زمانہ میں حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ ہوتا ہے۔
انسانِ کامل وہ قطب ہے جس پر اوّل سے آخر تک وجود کے فلک گردش کرتے ہیں اور وہ جب وجود کی ابتدا ہوئی، اس وقت سے لے کر ابدالآباد تک ایک ہی ہے۔ پھر اس کے لیے رنگا رنگ لباس ہیں اور باعتبارِ لباس اس کا ایک نام رکھا جاتا ہے کہ دوسرے لباس کے اعتبار سے اس کا وہ نام نہیں رکھا جاتا۔ اس کا اصلی نام محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ اس کی کنیت ابو القاسم اور اس کا وصف عبداللہ اور اس کا لقب شمس الدین ہے۔ پھر باعتبار دوسرے لباسوں کے اس کے نام ہیں۔ پھر ہر زمانہ میں اس کا ایک نام ہے جو اس زمانہ کے لباس کے لائق ہوتا ہے۔(صفحہ388)
اس حقیقت کو مزید وضاحت سے شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ ’فصوص الحکم ‘میں بیان کرتے ہیں:
ہر زمانہ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ازل سے لے کر ابد تک اپنا لباس بدلتے رہتے ہیں اور اکمل افراد کی صورت پر حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی جلوہ نما ہوتے ہیں۔
پس ازل سے ابد تک انسانِ کامل ایک ہی ہے اور وہ ذات صاحبِ لو لاک سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذات پاک ہے جو آدم علیہ السلام سے لے کر عیسیٰ علیہ السلام تک کے تمام رسولوں، انبیا اورخلفا کی صورت میں ظاہر ہوتی رہی ہے اور ختمِ نبوت کے بعد غوث، قطب، ابدال اور اولیا اللہ کی صورت میں ا علیٰ قدر مراتب ظاہر ہوتی رہے گی۔
حضرت شاہ سیدّ محمد ذوقی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسانِ کامل تمام موجودات کا خلاصہ ہے۔ باعتبار اپنی عقل اور روح کے اُمُّ الکتاب ہے، باعتبار قلب کے لوحِ محفوظ ہے اور باعتبار اپنے نفس کے محو و اثبات کی کتاب ہے۔ انسانِ کامل ہی صحفِ مکرمہ اور یہی وہ کتابِ مطہر ہے جس سے کوئی چیز نہیں چھوٹی۔ اس کے اسرار و معانی کو سوائے ان لوگوں کے جو حجاباتِ ظلماتی سے پاک ہوں کوئی ہاتھ نہیں لگا سکتا۔
مولانا جلال الدین رومی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جس طرح خزانے ویرانوں میں ہوتے ہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ اپنی ’’ امانت ‘‘ (امانتِ الٰہیہ ) بھی ایسے شخص کے دل میں ودیعت کرتا ہے جس کی زیادہ شہرت نہ ہو۔ ( مثنوی مولانا روم۔ دفتر سوم )
ہر دور میں ایک ایسا انسان موجود ہوتا ہے جو امانتِ الٰہیہ کا حامل یاامانتِ فقر کا وارث ہوتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خزانہ فقر کے مالک اور مختارِ کل ہیں اس لئے انہی سے یہ امانت اور خزانہ فقر منتقل ہوتا رہتا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے اِذن کے بغیر کسی انسان کو امانتِ الٰہیہ منتقل نہیں ہوسکتی۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے خزانہ فقر خاتونِ جنت حضرت فاطمتہ الزہرارضی اللہ عنہاکو منتقل ہوا اور آپ رضی اللہ عنہا اُمتِ محمدیہ میں فقر کی پہلی سلطان(سلطان الفقر اوّل) ہیں۔ یہی خزانۂ فقر بابِ فقر حضرت علی کرم اللہ وجہہ کو منتقل ہوا جن سے تمام سلاسل کا آغاز ہوا اور فقر اُمت کو منتقل ہوا اور اہلِ بیترضی اللہ عنہم میں خزانۂ فقر حسنین کریمین رضی اللہ عنہم کو منتقل ہوا۔پھر یہ منتقل در منتقل ہوتا ہوا شہسوارِ فقر غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗتک پہنچا، پھر خزانۂ فقر حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ تک پہنچا۔ اب جب بھی امانتِ الٰہیہ منتقل ہوتی ہے تو آقا پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس منتخب انسان کو تربیت کے لیے سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے حوالہ کرتے ہیں اور پھر وہاں سے اُسے امانتِ الٰہیہ یا خزانہ فقر کیلئے حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی بارگاہ میں حاضر ہونا پڑتا ہے۔ قیامت تک یہ خزانہ، خزانۂ فقر کے مختارِ کل صاحبِ لولاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت اور مہر سے اسی در سے منتقل ہوگا۔
امانتِ الٰہیہ کا حامل جسے صاحبِ مسمٰی مرشد کہا جاتاہے، ہی مرشدِکامل اکمل نور الہدیٰ ہوتا ہے۔ اگر طالب کو ایسا مرشد مل جائے تو فقر کی انتہا پر پہنچنا کوئی مشکل مرحلہ نہیں ہے۔ اس کی شان یہ بیان کی گئی ہے کہ وہ پہلے دِن ہی طالب کو سلطان الاذکار اسمِ اعظم ’’ھوُ‘‘ عطا کر دیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات تصور کے لیے عطا فرماتا ہے ۔ اگر ایسا مرشد مل جائے تو فوراً دامن پکڑ لینا چاہیے لیکن اس کو تلاش کرنا مشکل ہے کیونکہ یہ غیر معروف ہوتا ہے۔ سینہ بہ سینہ امانتِ الٰہیہ کی منتقلی کا یہ سلسلہ قیامت تک جاری رہے گا لیکناس مرشد تک صرف وہی طالب پہنچتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کی پہچان،دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حضوری کی طلب لے کر گھر سے نکلتے ہیں۔
یہی انسانِ کامل صاحبِ مسمٰی مرشد کامل اکمل نور الہدیٰ، حاملِ امانتِ الٰہیہ، خزانہ فقر کا مالک اور نائبِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہوتا ہے۔ اس کی تلاش اور غلامی فقرانے فرض قرار دی ہے اس لیے طالبِ مولیٰ پر اس کی تلاش فرض ہے۔
منتقلی امانتِ الٰہیہ اور امانتِ فقر
منتقلی امانتِ الٰہیہ اور سلسلہ سروری قادری
منتقلی امانتِ الٰہیہ یا منتقلی امانتِ فقر سے مراد مرشد کامل اکمل کا اپنے خاص الخاص طالب جسے مجلسِ محمدیؐ سے امانتِ فقر کے لیے منتخب کیا گیا ہو، کو اپنا تمام روحانی ورثہ منتقل کرنا ہے۔ یہ طالب مرشد کا محرمِ راز یا دِل کا محرم ہوتا ہے اور اس کے بعد سلسلہ کا سربراہ اور امام ہوتا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ منتقلی امانتِ الٰہیہ ، امانتِ فقر یا محرم راز، دِل کا محرم کے بارے میں فرماتے ہیں:
دل دا محرم کوئی نہ ملیا، جو ملیا سو غرضی ھُو
ترجمہ :مجھے کوئی ایسا طالبِ مولیٰ زندگی میں نہیں ملا جو میرے پاس صرف طلب ِمولیٰ لے کر آیا ہو۔ میرے پاس تو جو بھی آیا وہ کسی نہ کسی نفسانی، دنیاوی اور ذاتی خواہش اور غرض کی تکمیل کے لیے آیا۔
عین الفقر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
یہ فقیر باھُو کہتا ہے کہ میں تیس سال مرشد کی تلاش میں رہا اور اب سالہاسال سے طالب ِ مولیٰ کی تلاش میں ہوں لیکن مجھے کوئی طالبِ مولیٰ نہیں ملا۔
۱۔کس نہ پرسد ز من خدا پرسی
تا رسانم بعرش و با کرسی
۲۔ہیچ پردہ نماند راہِ خدا
گشتہ یکتا شوی ز غیر خدا
ترجمہ: (۱)کسی نے مجھ سے قربِ خدا کی طلب نہیں کی ور نہ میں اسے عرش اور کرسی تک پہنچا دیتا۔
(۲) پھر اس کے اور اللہ کی راہ کے درمیان کوئی پردہ نہ رہتا اور وہ غیر اللہ سے جدا ہوکر اللہ کے ساتھ یکتا ہوجاتا ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ امیر الکونین میں فرماتے ہیں:
کس نیابم طالبے حق حق طلب
میرسانم باحضوری راز ربّ
ترجمہ: میں کوئی بھی طالبِ حق نہیں پاسکا جو (مجھ سے) حق طلب کرے اور میں اسے رازِ ربّ عطا کرتے ہوئے حضورِ حق میں پہنچا دوں۔
باھوؒ کس نیامد طالبے لائق طلب
حاضر کنم بامصطفیٰؐ توحید ربّ
ترجمہ: اے باھُوؒ! میرے پاس کوئی بھی اللہ کی طلب لے کر نہیں آتا جسے میں مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری عطا کر کے وحدتِ حق تک لے جائوں۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ نور الہدیٰ کلاں میں فرماتے ہیں:
۱۔ہم طالبم مطلوب ہم مرشد تمام
ہر یکی را واقفم و از ہر مقام
۲۔در طلب طالب بطلبم سالہا
کس نیابم طالبی لائق لقا
ترجمہ: ( ۱) میں طالب بھی ہوں مطلوب بھی اورہر مرتبے و مقام سے واقف کامل مرشد ہوں۔
(۲ )میں سالہا سال سے ایسے طالب کی تلاش میں ہوں جو لقائے الٰہی کے لائق ہو مگر افسوس مجھے ایسا طالب نہ مل سکا۔
میں سالہا سال سے طالبانِ مولیٰ کا متلاشی ہوں لیکن مجھے ایسا وسیع حوصلے والا لائقِ تلقین اور صاحبِ یقین طالبِ صادق نہیں ملا جسے معرفت و توحیدِ الٰہی کے ظاہری و باطنی خزانوں کی نعمت و دولت کا نصابِ بے حساب عطا کر کے تبرکاتِ الٰہی کی زکوٰۃ کی ادائیگی کے فرض سے سبکدوش ہو جاؤں اور اللہ تعالیٰ کے حق سے اپنی گردن چھڑا لوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
اقبال! کوئی محرم اپنا نہیں جہاں میں
معلوم کیا کسی کو دردِ نہاں ہمارا
(بانگِ درا)
مندرجہ بالا حوالہ جات سے یہ بات ثابت ہو گئی کہ حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کو اپنی زندگی میں کوئی ایسا طالب نہ ملا جس کو امانتِ الٰہیہ منتقل کی جا سکتی اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ امانتِ الٰہیہ اور سلسلہ منتقل کیے بغیر ہی وصال فرما گئے۔
اس امانت اور سلسلہ کو بعد ازوصال آپ رحمتہ اللہ علیہ نے طالبِ حق سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل کیا جو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے وصال کے چوراسی سال بعد مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہکے وصال کے ایک سو انتالیس سال بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر آکر امانتِ الٰہیہ اور سلسلہ فقر حاصل کیا۔ یوں سلسلہ سروری قادری جہاں پر رکا تھا وہیں سے شروع ہو گیا۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سے امانتِ فقر (امانتِ الٰہیہ) سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیّد محمد عبد اللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کو منتقل ہوئی اور سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ سلسلہ سروری قادری کے شیخِ کامل ہیں۔
سلطان التارکین حضرت سخی سلطان سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ 29 رمضان المبارک 1186ھ (24 دسمبر 1772ئ) جمعتہ المبارک کی شب مدینہ منورہ میں پیدا ہوئے اور نواب بہاول خان سوئم کے دور میں 29 رمضان المبارک 1241ھ (6 مئی 1826) بروز ہفتہ احمد پور شرقیہ بہاولپور تشریف لائے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا شجرہ نسب غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی رضی اللہ عنہٗ کے ذریعے حضرت علی کرم اللہ وجہہ تک اس طرح پہنچتا ہے:
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانیؒ بن سیدّ عبدالرحیمؒ بن سیدّ عبدالعزیز ؒ بن سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلویؒ بن سیدّ عبدالقادر بن سیدّ شرف الدین بن سیدّ احمد بن سیدّ علاؤ الدین ثانی بن سیدّ شہاب الدین ثانی بن سیدّ شرف الدین قاسم بن سیدّ محی الدین یحییٰ بن سیدّ بدر الدین حسین بن علاؤ الدین بن شمس الدین بن سیف الدین یحییٰ بن ظہیر الدین مسعود بن ابی نصر محمد بن ابو صالح نصر بن سیدّنا عبدالرزاق جیلانیؒ بن غوث الاعظم سیدّنا حضرت شیخ عبدالقادر جیلانی ؓ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کی والدہ ماجدہ سیدّہ مومنہ امام سیدّ محمد تقی علیہ السلام کی اولاد پاک میں سے تھیں اس لیے آپ رحمتہ اللہ علیہ والدہ محترمہ کی طرف سے حسینی سیدّ ہیں، شجرہ نسب اس طرح سے ہے:
سیدّہ مومنہ بنتِ سیدّ محمد زکی الدین بن سیدّ عبداللہ بن سیدّ محمد مبین بن سیدّ امیر اخوند بن سیدّ امام الدین بن سیدّ حیدر بن سیدّ محمد بن سیدّ فیروز بن سیدّ قطب الدین بن سیدّ امام الدین بن سیدّ فخر الدین بن سیدّ کمال الدین بن سیدّ بدر الدین بن سیدّ تاج الدین بن سیدّ یحییٰ بن سیدّ عبدالعزیز بن سیدّ ابراہیم بن سیدّ محمود بن سیدّ زید شہوار بن سیدّ عبداللہ زربخش بن سیدّ یعقوب بن سیدّ احمد بن سیدّ محمد اعرج بن سیدّ احمد بن سیدّ محمد موسیٰ المبرقعؓ بن امام سیدّمحمد تقی ؓ بن امام سیدّ علی رضاؓ بن سیدّ امام موسیٰ کاظمؓ بن سیدّ امام جعفر صادقؓ بن سیدّ امام محمد باقرؓ بن سیدّ امام زین العابدین علی ؓ بن سیدّ الشہدا حضرت امام حسینؓ بن حضرت علی کرم اللہ وجہہ ابنِ ابی طالب۔
حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ کے مرشد سیدّ عبدالرحمن جیلانی دہلوی رحمتہ اللہ علیہ سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے پردادا ہیں۔ سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کے دادا سیدّ عبدالعزیز 1107ھ (1696ئ) میں دہلی سے بغداد تشریف لے گئے، پھر 1109ھ (1698ئ) میں مدینہ منتقل ہو گئے اور وہیں مستقل سکونت اختیار کر لی۔
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کی پیشانی بچپن سے ہی نورِ حق سے درخشاں تھی۔ جو بھی آپ رحمتہ اللہ علیہ کو دیکھتا آپ کا دیوانہ ہو جاتا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو بچپن سے ہی عباداتِ الٰہی سے خصوصی شغف تھا۔ بارہ سال کی عمر میں آپ رحمتہ اللہ علیہ نے قرآنِ مجید حفظ کر لیا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی طبیعت میں بے چینی بہت تھی، جب تک تلاوتِ قرآنِ پاک یا عبادت میں مصروف رہتے سکون رہتا، جیسے ہی فارغ ہوتے بے چینی اور بے سکونی دل پر چھا جاتی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اپنے نانا سیدّ محمد زکی الدین سے خاص محبت تھی کیونکہ انہوں نے ہی مکہ سے لے کر مدینہ تک آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سیرت و حیاتِ نبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے متعلق ہر تفصیل نہ صرف سنائی بلکہ پیدل چل کر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو ہر وہ جگہ خود دکھائی اور ہر اُس مقام پر لے گئے جہاں جہاں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے وقت گزارا یا چند لمحے بھی ٹھہرے تھے۔ ایک رات نمازِ مغرب کے وقت آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا حضرت سیدّ محمد زکی الدین آپ رحمتہ اللہ علیہ کو لے کر پہلے جنت البقیع تشریف لے گئے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کو سیدّہ کائنات حضرت فاطمتہ الزہرا رضی اللہ عنہا اور سیدّنا حضرت امام حسن رضی اللہ عنہٗ کے سپرد فرمایا اور عرض کی ’’یہ آپ کی جد ہے اور اس غریب الوطن کا نواسہ ہے۔ میرے بعد اس کا خیال رکھنا۔‘‘ پھر آپ رحمتہ اللہ علیہ کو لے کر بارگاہ ِنبوی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حاضر ہوئے اور رو رو کر عرض کی’’ آقا یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا نواسہ ہے، اس کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے حوالے کر رہا ہوں اس کو اپنی وراثت (فقر) سے محروم نہ رکھنا۔‘‘ رات گئے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا نے آپ رحمتہ اللہ علیہ کو گھر چھوڑا اور اپنے گھر تشریف لے گئے۔ صبح ابھی آپؒ والدین کے ہمراہ نمازِ فجر کا وضو کر ہی رہے تھے کہ اطلاع ملی کہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کے نانا سیدّ محمد زکی الدین کا وصال ہوگیا ہے۔ اس وقت سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ کی عمر مبارک صرف چودہ سال تھی۔ نانا کے وصال سے آپؒ کے دل کو شدید صدمہ پہنچا کیونکہ نانا کے پاس رہ کر تھوڑا بہت جو سکون ملتا تھا وہ بھی جاتا رہا۔ والد کے کاروبار میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل نہیں لگتا تھا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ اکثر ویرانوں میں نکل جاتے۔ کبھی کبھی تو بے چین اور بے سکون ہو کر دوڑتے دوڑتے مدینہ منورہ سے کئی میل دور نکل جاتے تھے اور آپ رحمتہ اللہ علیہ کے پائوں لہولہان ہوجاتے۔
والدین کی وفات کے بعد آپ رحمتہ اللہ علیہ کا دل دنیا سے بالکل اچاٹ ہو گیا اور آپ نے گھر بار چھوڑ کر روضہ رسولؐ پر مستقل سکونت اختیار کر لی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نہ تو کسی سے کوئی غرض رکھتے اور نہ سوال کرتے ،چپ چاپ اپنے کام میں مگن وراثتِ فقر کی التجا کرتے رہتے۔ یہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کی بے قراری کو قرار بھی آگیا اور دل کو سکون بھی مل گیا تھا۔ عرصہ چھ سال کی خدمت اور غلامی کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے خواب میں دیدار کی نعمت عطا کی اور پوچھا! تو اس خدمت کے بدلے میں کیا چاہتا ہے؟ سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ نے عرض کی’’ حضور صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے۔‘‘ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا’’ فقر کے لیے تجھے ہند سلطان باھوُ( رحمتہ اللہ علیہ) کے پاس جانا ہوگا۔‘‘
جب سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ خواب سے بیدار ہوئے تو بہت حیران اور پریشان ہوئے کہ رشد و ہدایت کا منبع تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم خود ہیں پھر مجھے سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس کیوں بھیجا جارہا ہے؟ لہٰذا دوبارہ خدمت اور غلامی کا سلسلہ شروع فرما دیا۔ مزید چھ سال کے بعد حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے دیدار سے مستفید فرمایا اور پھر پوچھا ’’ اس خدمت کے بدلہ میں کیا چاہتے ہو؟‘‘ تو آپ رحمتہ اللہ علیہ نے پھر عرض کیا ’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام جانتے ہیں کہ یہ غلام فقر چاہتا ہے۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’تجھے فقر سلطان باھوُ (رحمتہ اللہ علیہ) سے ہی ملے گا۔‘‘ اس مرتبہ سیدّ محمد عبداللہ شاہؒ نے عرض کی ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم !میں تو اُس علاقے کی زبان، رسم و رواج، رہن سہن اور کھانے پینے تک سے ناواقف ہوں۔‘‘ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ’’ ہم تجھے اپنے محبوب شیخ عبدالقادر جیلانی(رضی اللہ عنہٗ) کے سپرد کرتے ہیں، تمہاری تربیت کرنا اور وہاں تک پہنچانا اب اُن کی ذمہ داری ہے۔‘‘
خواب سے بیدار ہوتے ہی سیدّ محمد عبداللہ شاہ رحمتہ اللہ علیہ حکم کے مطابق بغداد شریف سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ کے مزار مبارک پر پہنچے اور وہاں ان کی باطنی راہنمائی میں تمام سروری قادری مشائخ کے مزارات سے ترتیب وار فیض حاصل کرتے ہوئے جھنگ ہندوستان (موجودہ پاکستان) حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار مبارک پر 12 ربیع الاول 1241ھ (24 اکتوبر 1825ئ) سوموار کے دِن حاضر ہوئے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے باطنی طور پر انہیں امانتِ فقر، امانتِ الٰہیہ منتقل فرمائی۔ سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ نے مزار حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پر ہی رہائش اختیار کر لی جہاں چھ ماہ تک حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے ان کی باطنی تربیت فرمائی اور پھر حکم دیا کہ ریاست بہاولپور کے شہر احمد پور شرقیہ چلے جائیں، وہیں مستقل سکونت اختیار کریں اور طالبانِ مولیٰ کو اسمِ اللہ ذات کا فیض عطا فرمائیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اس حکم پر عمل کیا اور تمام زندگی احمد پور شرقیہ میں گزار دی۔
29 رمضان المبارک 1276ھ (20 اپریل 1860) بروز جمعتہ المبارک بعد نمازِ عصر احمد پور شرقیہ میں اپنی خانقاہ میں وصال فرمایا اور وہیں مدفون ہوئے۔
سیدّ محمد عبداللہ شاہ مدنی جیلانی رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک فتانی چوک، فتانی محلہ احمد پور شرقیہ ضلع بہاولپور پاکستان میں ہے۔