طالبِ مولیٰ
دِل میں کسی خاص چیز کے حصول کی خواہش اور ارادہ کا نام طلب ہے اور حصولِ طلب کا جذبہ دِل میں ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو انسان اپنے دِل میں اللہ تعالیٰ کی پہچان، دیدار اور معرفت کا ارادہ کر لیتا ہے تو اس کی خواہش کو ’’طلبِ مولیٰ‘‘ اور اسے طالبِ مولیٰ یا ارادت مند کہتے ہیں جسے عام طور پر سالک، طالب یا مرید کے نام سے بھی موسوم کیا جا تا ہے۔
دنیا میں تین قسم کے انسان یا انسانوں کے گروہ پائے جاتے ہیں:
1۔ طالبانِ دنیا: جو انسان اپنے علوم وفنون، کمالات اور کوشش و کاوش دنیا کو حاصل کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں اور اُسے ہی اپنی زندگی کا مقصد قرار دیتے ہیں، حتیٰ کہ ان کا ذکر فکر، عبادات وریاضت، چلہ کشی، ورد و وظائف کا مقصد بھی دنیاوی مال ومتاع کا حصول یا اس میں اضافہ ہے۔ وہ دنیاوی آسائش کے حصول اور دنیاوی ترقی و عزّوجاہ کو ہی کامیابی گر دانتے ہیں۔
2۔ طالبانِ عقبیٰ: جن کا مقصود آخرت کی زندگی کو خوشگوار بنانا ہے۔ ان کے نزدیک نارِ جہنم سے بچنا اور بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کا حصول زندگی کی کامیابی ہے۔ اس لیے یہ عبادت، ریاضت، زہد و تقویٰ، صوم و صلوٰۃ، حج، زکوٰۃ، نوافل، ذکر اذکار اور تسبیحات سے آخرت میں خوشگوار زندگی کے حصول کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک یہی زندگی کا مقصد اور کامیابی ہے۔
3۔ طالبانِ مولیٰ: جن کی عبادات اور جدو جہد کا مقصود دیدارِ حق تعالیٰ اور اُس کا قرب و وصال ہے۔ یہ نہ تو دنیا کے طالب ہوتے ہیں اور نہ بہشت، حورو قصور اور نعمت ہائے بہشت کے۔ ان کا مقصد ذاتِ حق تعالیٰ ہوتا ہے یعنی یہ اللہ تعالیٰ کی ذات کے طالب اور عاشق ہوتے ہیں۔ اس طلب کے لیے یہ دونوں جہانوں کو قربان کر دیتے ہیں اور دنیاوعقبیٰ کو ٹھکرا کر ذاتِ حق کے دیدار کے متمنّی رہتے ہیں۔
عارفین ہمیشہ طالب ِ مولیٰ بننے کی تلقین کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
وَّ کُنْتُمْاَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۔ فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ وَ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ۔ وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۔ (سورۃ الواقعہ7-12)
ترجمہ: اور تم لوگ تین قسموں میں بٹ جاؤ گے۔ سو (ایک) دائیں جانب والے، دائیں جانب والوں کا کیا کہنا۔ اور (دوسرے) بائیں جانب والے، کیا (ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے، (یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (اللہ کے) مقرب ہوں گے۔ نعمت کے باغات میں (رہیں گے)۔
حضرت ابودردا رضی اللہ عنہٗ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا ’’اللہ تعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو ان کے دائیں کندھے پر ہاتھ مار کر ایک روشن مخلوق چونٹیوں کی طرح باہر نکالی، پھر بائیں کندھے پر ہاتھ مار کر کوئلے کی طرح سیاہ ایک اور مخلوق نکالی اور دائیں ہاتھ والوں کے لیے فرمایا کہ یہ جنت کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں اور بائیں ہاتھ والوں کے لیے فرمایا کہ یہ جہنم کے لیے ہیں اور مجھے کوئی پرواہ نہیں۔‘‘ (مسند احمد28036)
ان تینوں گروہوں کو اس حدیثِ قدسی میں بھی بیان کیا گیا ہے:
طَالِبُ الدُّنْیَا مُخَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْعُقْبٰی مُؤَنَّثٌ وَ طَالِبُ الْمَوْلٰی مُذَکَّرٌ ۔
ترجمہ: دنیا کا طالب مخنث (ہیجڑہ) ہے، عقبیٰ کا طالب مؤنث (عورت) ہے اور طالبِ مولیٰ مذکر (مرد) ہے۔
سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس کے ایک قول کے مطابق ’’مرد‘‘ کی تعریف کچھ یوں ہے:
’’مرد‘‘ لفظ ایک صفت کا نام ہے نہ کہ ہم اس کو جسمانی خدوخال یا شکل و صورت سے جانیں بلکہ ’’مرد‘‘ ایک شان اور اعلیٰ صفت ہے جو ہر عورت اور مرد میں پائی جاتی ہے۔ طلبِ حق کا راستہ مرد ہی اختیار کرتے ہیں۔ اس بنا پر بہت سے مرد عورتیں ہیں اور بہت سی عورتیں مرد ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
مرد مذکر کسے کہتے ہیں ؟جس کے دل میں اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی طلب نہ ہو۔ نہ دنیا نہ زینتِ دنیا کی، نہ حوروں اور جنت کے محلات اور میووں کی، نہ براق اور نہ ہی جنت کی کسی اور لذّت کی۔ اہلِ دیدار کے نزدیک یہ سب کریہہ، بدصورت اور بے حیثیت ہیں کیونکہ انہوں نے اپنے دل میں اسمِ اللہ کو بسا لیا ہے اور وہ ازل سے اس کی مستی میں غرق ہیں۔ جس نے اسمِ اللہ کو اپنا جسم اور جان بنا لیا وہ دونوں جہانوں کے غم سے آزاد ہو گیا۔ (عین الفقر)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے طلب ِ مولیٰ کے بارے میں فرما یا ہے:
مَنْ طَلَبَ شَیْئًا فَلَا تَجِدُہٗ خَیْرًا وَ مَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: جو شخص کسی چیز کی طلب کرتا ہے وہ اس میں کبھی بھلائی نہیں پاتا اور جو شخص مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُس کے لئے سب کچھ ہے۔
مَنْ طَلَبَ الدُّنْیَا فَلَہُ الدُّنْیَا وَ مَنْ طَلَبَ الْعُقْبٰی فَلَہُ الْعُقْبٰی وَ مَنْ طَلَبَ الْمَوْلٰی فَلَہُ اْلکُلُّ
ترجمہ:جودنیا طلب کرتاہے اُسے دنیا مِلتی ہے، جو عقبیٰ (آخرت)کا طلبگار ہوتا ہے اُسے عقبیٰ ملتی ہے اور جو مولیٰ کی طلب کرتا ہے اُسے سب کچھ ملتا ہے۔
طَلْبُ الْخَیْرِ طَلْبُ اللّٰہِ وَ ذِکْرُ الْخَیْرِ ذِکْرُ اللّٰہ۔
ترجمہ: بہترین طلب اللہ تعالیٰ کی طلب ہے اور بہترین ذکر ’اللہ‘ (یعنی اسم اللہ ذات) کا ذکر ہے۔
اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْعُقْبٰی وَالْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الدُّنْیَا وَ الدُّنْیَا وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْمَوْلٰی۔ مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ: دنیا طالبِ عقبیٰ پر حرام ہے، عقبیٰ طالبِ دنیا پر حرام ہے اور طالبِ مولیٰ پر دنیا و عقبیٰ دونوں حرام ہیں۔ جسے مولیٰ مل گیا اسے سب کچھ مل گیا۔
حدیث میں طالبِ مولیٰ کی یہ نشانی بیان کی گئی ہے:
اَجْسَامُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ قُلُوْبُھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اَلصَّلٰوۃُ الدَّایِٔمُوْنَ یُصَلُّوْنَ فِیْ قُلُوْبِھِمْ
ترجمہ: اِن کے اجسام دنیا میں اور اِن کے دِل آخرت میں ہیں، وہ دائمی نماز دِل میں ادا کرتے ہیں۔
حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
مَنْ کَانَ لِلّٰہِ کَانَ اللّٰہُ لَہٗ
ترجمہ: جو اللہ کا ہوگیا اللہ اس کا ہوگیا۔
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرما ن ہے :
میں اللہ تعالیٰ کی عبادت جنت کی طلب یا دوزخ کے خوف سے نہیں کرتا بلکہ میں اللہ کی عبادت اس لیے کرتا ہوں کیونکہ وہی عبادت کے لائق ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبل رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے اپنے کانوں سے حضرت فضیل بن عیاض رحمتہ اللہ علیہ کو یہ فرماتے سنا ’’طالبِ دنیا رسوا اور ذلیل ہوتا ہے۔‘‘ جب میں نے اپنے لیے کچھ نصیحت کرنے کے متعلق عرض کیا تو فرمایا ’’خادم بنو مخدوم نہ بنو کیونکہ خادم بننا ہی وجہ ٔسعادت ہے۔‘‘ (باب 10 تذکرۃ الاولیا)
سیدّنا غوث الاعظم حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؓ طالبِ مولیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:
اے طالبِ دنیا اور اے درہم و دینار (دولت) کے خواہش مند! یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے قبضۂ قدرت میں ہیں پس تو ان کو مخلوق سے طلب نہ کر اور نہ مخلوق کے دینے سے ان کو اللہ تعالیٰ کا شریک سمجھ اور نہ ان کے اسباب پر اعتماد کرنے کی زبان مانگ۔ (الفتح الربانی)
جب میں صادق مریدوں (طالبانِ مولیٰ) کا چہرہ دیکھتا ہوں جنہوں نے میرے ہاتھ پر فلاح حاصل کی تو سیر ہو جاتا ہوں۔ (الفتح الربانی)
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
معرفتِ الٰہی کے قابل وہ شخص ہے جس کی ہمت بلند ہو یعنی نہ وہ دنیا کا طالب ہو نہ آخرت کا طالب بلکہ محض حق تعالیٰ کی ذات کا طالب ہو۔ (شرح فصوص الحکم والایقان)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے کلام میں جابجا طالبِ مولیٰ سے خطاب کیا گیا ہے اور عبادت کے بدلے میں کسی جزا اور اجر کی تمنا رکھنے کو آپؒ نے سوداگری قرار دیا ہے۔ آپؒ ہر عمل اور عبادت بے غرض ہو کر صرف اللہ تعالیٰ ہی کے لیے کرنے کی تلقین فرماتے ہیں:
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے
واعظ کمالِ ترک سے ملتی ہے یاں مراد
دنیا جو چھوڑ دی ہے تو عقبیٰ بھی چھوڑ دے
جس کا عمل ہے بے غرض، اس کی جزا کچھ اور ہے
حور و خیام سے گزر، بادہ و جام سے گزر
(بانگِ درا)
آپؒ فرماتے ہیں کہ جنت عبادت و ریاضت کرنے والوں کو مبارک ہو، میں تو دیدار چاہتا ہوں۔ میں ہوں توایک ذرّہ کے برابر لیکن شوق اتنا ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی طرح سوال کر بیٹھا ہوں۔
یہ جنت مبارک رہے زاہدوں کو
کہ میں آپ کا سامنا چاہتا ہوں
ذرا سا تو دل ہوں مگر شوخ اتنا
وہی لَنْ تَرَانِیْ سنا چاہتا ہوں
(بانگِ درا)
علامہ اقبالؒ اللہ تعالیٰ کی طلب کو ہی دین قرار دیتے ہیں، آپؒ فرماتے ہیں:
دین سراپا سوختن اندر طلب
انتہایش عشق و آغازش ادب
ترجمہ: دین کیا ہے؟ یہ اللہ کی طلب اور محبت کی آگ میں خود کو جلانا ہے۔ اس کی انتہا عشق اور ابتدا (مرشد کا) ادب ہے۔
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ طالبِ مولیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:
طالبِ مولیٰ کو اپنی طلب میں اسی طرح صادق ہونا چاہیے جیسے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ صاحبِ صدق۔
صدق میں طالبِ مولیٰ کو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہٗ کی مثل ہونا چاہیے کہ مرشد پر اپنی جان، مال اور اولاد قربان کرنے سے دریغ نہ کرے۔
طالبِ مولیٰ دنیا اورلذ ّاتِ دنیا اور عقبیٰ کے درجات اور اس کی نعمتوں کا طلب گار نہیں ہوتا اس کی طلب تو بس دیدار ہوتی ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اﷲ علیہ نے اپنی تصانیف میں تمام گفتگو طالبانِ دنیا، طالبانِ عقبیٰ اور طالبانِ مولیٰ کے معاملات پر کی ہے۔ آپؒ کی نگاہ میں عوام طالبانِ دنیا ہیں، خواص یعنی علمائے حق، عابد، زاہد اور متقی پرہیزگار طالبانِ عقبیٰ ہیں اور خاص الخاص لوگ یعنی انبیا، اولیا کرام، صدیقین اورصالحین طالبانِ مولیٰ ہیں۔ آپؒ فرماتے ہیں:
جان لے کہ طالبِ مولیٰ کے لیے فرضِ عین ہے کہ پہلے مرشد کامل تلاش کرے خواہ اسے مشرق سے مغرب اور قاف سے قاف تک ہی کیوں نہ جانا پڑے۔ ناقص مرشد کی راہ ناقص تقلید پر مبنی ہوتی ہے اور اس راہ کی تاثیر کے آثار خود اس کے ناقص ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔ مرشد کامل کی ابتدا اور انتہا ایک ہوتی ہے۔ وہ صراطِ مستقیم پر ہوتا ہے اور اسے حضوری، نورِ الٰہی کی تجلیات کا مشاہدہ، قربِ الٰہی، توحید کی معرفت اور سلک سلوکِ تصور کے تمام مراتب اور ان پر تصرف حاصل ہوتا ہے۔ ناقص مرشد کے مریدوں کی تعداد جتنی زیادہ ہوتی ہے اتنا ہی وہ قرب اور معرفتِ الٰہی سے دور اور دنیا وآخرت میں ذلیل وخوار ہوتا ہے۔ (قربِ دیدار)
عالم اسے کہتے ہیں جو عین طالب ِحق ہو اور مولانا اسے کہتے ہیں جو طالبِ مولیٰ ہو۔ (عین الفقر)
آپؒ طالبِ مولیٰ کی خصوصیات بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
لفظ طالب کے چار حروف ہیں: ط، ا، ل، ب۔ حرف ’ط‘ سے طالب خواہشاتِ نفس کو ایک ہی بار میں تین طلاق دے دیتا ہے اور ہوائے لذتِ نفس اور دنیا کو تین طلاق دے دیتا ہے جو کہ بوڑھی راہزن عورت کی مثل ہے اور معصیت ِ شیطان کو بھی تین طلاق دے دیتا ہے جو کہ دشمن ِ انسان ہے۔ جب طالب ان تمام ناشائستہ صفات کو طلاق دے دیتا ہے تو تمام علائق اور مشکلات سے پاک ہو کر تائب ہو جاتا ہے۔ نیز حرف ’ط‘ سے طالب طلب ِ مولیٰ رکھتا ہے جو اسے اس کے مطالب تک پہنچاتی ہے اور طالب معرفت ِ الٰہی کے لائق بنتا ہے۔ حرف ’ا‘ سے طالب کا ارادہ صادق ہوتا ہے اور وہ صدیق باتصدیق طالب ِ مولیٰ ہوتا ہے جو طریق ِتحقیق سے ظاہری و باطنی عبادت کرتا ہے اور سونے کے لیے لیٹتا تک نہیں۔ وہ توفیقِ الٰہی سے مراقبہ و استغراق میں محو ہمیشہ اللہ کی ذات میں مشغول رہتا ہے اور راہِ راستی سے اپنے قدم غلط راستے کی طرف نہیں لے جاتا بلکہ اپنی جان تک راہِ حق میں قربان کر دیتا ہے۔ حرف ’ل‘ سے طالب حیا کے لائق ہوتا ہے جو نفس کو فنا کر کے تکبر اور خواہشاتِ نفسانی سے آزاد ہو جاتا ہے اور اس کی روح بقا حاصل کر لیتی ہے۔ ایسے طالب کو اللہ کی طرف خوش آمدید۔ حرف ’ب‘ سے طالب حق کا بار اٹھانے والا اور باطل کو ترک کرنے والا باادب اور بزرگ ہوتا ہے جو مرشد کے سامنے بے اختیار اور اس کا حکم ماننے میں ہوشیار ہوتا ہے۔ اسی صفت کے حامل طالب کے بارے میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْمُرِیْدُ لَا یُرِیْد
ترجمہ: مرید لایرید ہوتا ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
حق کا طالب حق لے کر آتا ہے اور حق ہی لے کر جاتا ہے۔ اس کے قدم دنیا اور غیر ماسویٰ اللہ کی طرف نہیں بڑھتے۔ (کلید التوحید کلاں)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوؒ طالبِ دنیا کے بارے میں فرماتے ہیں:
یہ فقیر باھوؒ کہتاہے کہ طالب ِ دنیا دو حکمت سے خالی نہیں ہوتا یا وہ منافق ہو گا یا ریاکار۔ دنیا شیطان ہے اور طالبِ دنیا شیاطین ہیں۔ دنیا فتنہ اور فساد ہے اور طالبِ دنیا فتنہ انگیر ہیں۔ دنیا نفاق ہے اور اس کے طالب منافق ہیں۔ دنیا حیض کا خون ہے اور طالب ِ دنیا حائض ہیں۔ دنیا جھوٹ ہے اور طالب ِ دنیا جھوٹے ہیں۔ دنیا شرک ہے اور طالب ِ دنیا مشرکین ہیں۔ دنیا خبث ہے اور طالب ِ دنیا خبیث ہیں۔ دنیالعنت ہے اوراس کے طالب لعنتی ہیں۔ جان لے کہ دنیاکے مال کو جان سے عزیز وہ رکھتاہے جو بے دین،بے عقل اور بے تمیز ہو۔ دنیا جہل ہے اور اس کے طالب جاہل ہیں۔ دنیا فاجرہ اور بدکار عورت ہے اور اہلِ دنیا اس کے شوہر دیوث (بیوی کی دلالی کر کے دولت جمع کرنے والے) ہیں جو پوشیدہ و ظاہر اپنی ہی عورت کو دوسروں کے ساتھ زنا اور فحاشی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں۔ (عین الفقر)
اے جانِ عزیز! جاننا چاہیے کہ طالبِ صادق جان سے بھی زیادہ پیارا اور عزیز ہوتا ہے جبکہ جھوٹا اور جاسوس طالب جان کا دشمن مثلِ شیطان ہے بلکہ شیطان سے بھی بدتر کیونکہ شیطان تو لاحول پڑھنے سے بھاگ جاتا ہے لیکن طالب ِکاذب سو بار لاحول پڑھنے سے بھی نہیں جاتا بلکہ جان لینے کے درپے رہتا ہے۔
باھوؒ گر طالب ِصادق چو مرشد راز بر
می رساند طالبان را با نظر
ترجمہ: باھوؒ! اگر طالب صادق صاحبِ راز مرشد تک پہنچ جائے تو مر شد ایک ہی نگاہ سے اسے راز (اللہ) تک پہنچا دیتاہے۔
جان لے کہ عز و جاہِ دنیا کا طالب ذلیل، محجوب، مخنث اور بے مقصود ہے۔ طالبِ عقبیٰ مجذوب و مردود ہے۔ طالبِ مولیٰ محبوب ہوتا ہے اور اس کی عاقبت محمود ہے۔ جو طالب نورِ ذات کی معرفت اور عین بعین دیدار اور قرب سے مشرف ہوتا ہے وہ قاضی بن کر ہمیشہ اپنے نفس کو حساب گاہ میں کھڑا کر کے اس کا محاسبہ کرتا رہتا ہے۔ شریعت کی روسے اللہ کے قربِ دیدار کے دو گواہ ہیں۔ ایک بے مثال نظر و نگاہ اور دوسرا قوتِ توفیق سے ازلی آگاہی۔ یہ دونوں طالب کو ہمیشہ اللہ کے حفظ و امان میں رکھتے ہیں۔ (قربِ دیدار)
اے عزیز! طالب کو چاہیے کہ ہمیشہ ذکر ِ اللہ میں مشغول رہے اور ذکر سے کبھی بھی فارغ نہ ہو، اللہ تعالیٰ کے قرب کے لیے خلوت نشینی اختیار کرے تاکہ استقامت کے ساتھ ذکر ِاللہ جاری رکھ سکے اور شیطانی خیالات سے ان کی نفی کے ذریعے نجات پا سکے، دنیاوی زندگی کی لذات اور شہوات کو کم کرے تاکہ ذکر اللہ کی شیرینی سے اللہ کی برہان عطا ہو اور اللہ تعالیٰ کی زیادہ سے زیادہ معرفت اور غلامی نصیب ہو۔
اَلذَّاکِرُ ھُوَ الْخَارِجُ عَنْ ذِکْرِ مَاسِوَی اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: ذاکر وہ ہے جو غیر ماسویٰ اللہ کے ذکر سے فارغ ہو۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
وَاذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ (سورۃ الکہف۔24)
ترجمہ: اپنے ربّ کا ذکر (اس قدر محویت سے) کرو کہ خود کو بھی فراموش کر دو۔ (تلمیذ الرحمن)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اپنے فارسی کلام میں طالبِ مولیٰ کے بارے میں فرماتے ہیں:
دم بہ دم دیوانہ بہ ہوشیار باش
طلبِ مولیٰ طلبِ دیدار باش
ترجمہ: اے طالبِ مولیٰ! ظاہر میں دیوانہ مگر باطن میں ہوشیار بن کے رہ اور طلبِ مولیٰ میں طالبِ دیدار بن کے رہ۔ (محک الفقر کلاں)
طالباں را با طلب مطلوبِ خویش
ہر مطالب آئینہ بہ نمودہ پیش
ترجمہ: طالبانِ مولیٰ ہر وقت اپنے مطلوب کی تلاش میں رہتے ہیں۔ ان کے دِل کا آئینہ ان کا ہر مطلب اُن کے سامنے رکھتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
سلطان العارفین ؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
پاٹا دامن ہویا پرانا، کچرک سیوے درزی ھوُ
دِل دا محرم کوئی نہ مِلیا، جو مِلیا سو غرضی ھوُ
باجھ مُربیّ کِسے نہ لدّھی، گجھی رمز اندر دِی ھوُ
اوسے راہ وَل جائیے باھوؒ، جس تھیں خلقت ڈردی ھوُ
آپؒ فرما رہے ہیں کہ طالب ِصادق کو تلاش کرتے کرتے میرا دامن تار تار ہو چکا ہے۔ اب تک تو دِل کا محرم (صادق طالب ِ مولیٰ جس کو مرشد امانتِ الٰہیہ منتقل کرکے مسندِ تلقین و ارشاد پر فائز کرتا ہے) نہیں ملا۔ اﷲ تعالیٰ کی طلب دِل میں لے کر کوئی بھی میرے پاس نہیں آیا کہ میں اُسے اﷲ سے ملا دوں۔ جو بھی آیا وہ اپنے ذاتی اغراض و مقاصد کے حصول کے لئے آیا۔ بغیر مرشد کامل اکمل کے کوئی بھی دِل کے اندر پوشیدہ رازِ حق تعالیٰ کو نہیں پا سکتا۔ دیدارِ ذات کے راستہ پر چلنا چاہیے لیکن لوگ اس راہ پر چلنے سے ڈرتے ہیں اور بعض تو خوف کی وجہ سے اس راہ کا ہی انکار کر دیتے ہیں۔
طالب بن کے طالب ہوویں، اُسے نوں پیا گانویں ھوُ
سچا لڑ ہادی دا پھڑکے، اوہو تو ہو جانویں ھوُ
کلمے دا تُوں ذِکر کماویں، کلمے نال نہانویں ھوُ
ﷲ تینوں پاک کریسی باھوؒ، جے ذاتی اِسم کمانویں ھوُ
اے طالب! تو مرشد کامل کا صادق طالب بن جا اور ظاہر و باطن میں اس کی کامل اور مکمل اتباع کر حتیٰ کہ خود کو مرشد کی ذات میں فنا کر دے۔ کلمہ طیبہ کے ذکر سے نفی، اثبات اور حقیقتِ محمدیہ کی کنہ اور حقیقت کو پا کر ہمیشہ کے لئے پاکیزہ ہو جا۔ جب تو اپنے آپ کو اسم اللہ ذات میں فنا کر دے گا تو اﷲ تعالیٰ تجھ سے ہر قسم کی نجاست دور کر کے تجھے بھی پاک اور صاف کر دے گا۔
جاسوس، ناقص اور خام طالب
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ جاسوس، ناقص اور خام طالب کے بارے میں فرماتے ہیں:
جس کی نظر میں دنیا اور اہل ِ دنیا کی محبت، وقعت اور عزت ہے وہ ملعون طالب ہے۔ (محبت الاسرار)
طالبی جاسوس و دشمن صد ہزار
طالب حق یک دو کس طالب شمار
ترجمہ: جاسوس اور دشمن طالب تو ہزاروں ہوتے ہیں لیکن طالبِ حق ایک دو ہی ہوتے ہیں۔ (کلید التوحید کلاں)
بے اخلاص، بے ادب، بے وفا اور بے حیا طالب سے کتّا بہتر ہے۔ جو مرید (طالب) دنیا مردار سے محبت کرتا ہے وہ طلب ِ معرفت میں مردار رہتا ہے۔ (فضل اللقا)
جو طالب لائق و نالائق مرشد میں تمیز نہیں کرسکتا وہ خود احمق ہے اور ایسا طالب آخر کار محروم رہ جائے گا۔ طالب ہونا بڑا مشکل کام ہے۔ بے حیا اور بے ادب طالب سے ایک دن کا آشنا کتا بہتر ہے۔ (عقلِ بیدار)
طلبِ مولیٰ سرا سر وصال ہے اور طلب ِ دنیا و درجات سرا سر سوال ہے۔ اہلِ سوال اور اہلِ وصال کا باہم مل بیٹھنا درست نہیں۔ طالبِ مولیٰ مسرور ہے، طالبِ دنیا رنجور ہے اور طالب ِعقبیٰ مزدور ہے۔ (محک الفقر کلاں)
صادق طالب کی دو علامتیں ہیں۔ ایک یہ کہ مرشد کے نیک و بد اعمال کا خیال نہ کرے دوسرے ثواب و گناہ کو نہ دیکھے۔ ایسے طالب کو مرشد یکبارگی معرفت و قربِ الٰہی میں پہنچا دیتا ہے۔ (عقل ِ بیدار)
آپؒ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں:
ناں کوئی طالب ناں کوئی مرشد، سب دِلاسے مُٹھّے ھوُ
راہ فقر دا پرے پریرے، سب حرص دُنیا دے کُٹھّے ھوُ
شوق الٰہی غالب ہویاں، جند مرنے تے اُٹھّے ھوُ
باھوؒ جیں تن بھڑکے بھاہ برہوندی، اوہ مرن ترہائے بھکھیّ ھوُ
اس زمانہ میں نہ تو کوئی صادق طالبِ مولیٰ ہے اور نہ ہی کوئی کامل مرشد، سب جھوٹی تسلی اور دلاسے ہیں۔ فقر کا راستہ بہت دور ہے اور یہ خام طالب اور ناقص مرشد دنیا کی حرص اور ہوس میں مبتلا ہیں۔ جن کو ذاتِ حق تعالیٰ سے عشق ہو جاتا ہے وہ راہِ عشق میں جان دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ جس دل کے اندر عشق کی آگ بھڑک اٹھتی ہے وہ دیدارِ الٰہی کے شوق میں بھوکا پیاسا مرنے کو ترجیح دیتا ہے۔
المختصر بات صرف ایک نکتہ کی ہے، اگر وہ نکتہ سمجھ آجائے تو تمام مسائل حل ہوجاتے ہیں۔ تمام کا ئنات بشمول دنیا و عقبیٰ اللہ تعالیٰ کی ہے، ان کا مالک و خالق اللہ تعالیٰ ہے پھر کیوں نہ دنیا اور عقبیٰ جو اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں، کو چھوڑ کر دنیا و عقبیٰ کے مالک کے دیدار اور پہچان کے لئے اس کی عبادت کی جائے۔ جب مختارِ کُل اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوجائے گی اور وہ راضی ہو جائے گا تو دنیا و عقبیٰ کا حصول معمولی بات ہے۔ اگر کوئی یہ گمان کرے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف قدموں سے چل کر پہنچا جا سکتا ہے تو وہ گمراہی پر ہے۔ اللہ تعالیٰ جہات، زمان، مکان، اوان، دِن رات، حدود، اقطار اور مقدار سے منزّہ اور مبّرا ہے۔ قرب و دیدارِ الٰہی کا سفر انسان کی اپنی حقیقت کی پہچان یا ’’نفس کے عرفان‘‘ یا خود اس کے قلب و باطن کا سفر ہے۔ راہِ قلب پر چل کر ہی وہ نورِ بصیرت حاصل ہوتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کا دیدار ممکن ہے
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیفِ لطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)
حق بیان فرمایا
Bohat alla
سوداگری نہیں، یہ عبادت خدا کی ہے
اے بے خبر! جزا کی تمنا بھی چھوڑ دے