دربار ۔ حضرت سخی سلطان باھوؒ
مزارِ انور
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کو شور کوٹ میں دریائے چناب کے مغربی کنارہ پر واقع قلعہ قہرگان میں دفن کیا گیا۔ یہاں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار مبارک 78 سال1102ھ تا1180ھ (1691ئ۔ 1767ئ) تک رہا ۔ جب جھنڈ ا سنگھ اور گنڈا سنگھ نے لاہور پر قبضہ کیا تو حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد پنجاب کے مختلف اطراف میں ہجرت کرگئی ۔چند ایک فقیر اورخلفا مزار پر رہتے تھے۔ 1180ھ (1767) میں دریا قلعے تک آپہنچا اور اسے گرا دیا اور پھر قبروں تک جا پہنچا ۔ فقیروں اور خلفا نے باقی مزاروں کو نکال لیا اور صندوقوں میں رکھ لیا۔ حضرت سلطان باھوؒ کا مزار بدستور رہا کیونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق نہ مل سکا ۔ فقیر اور خلفا ناامید ہو کر رونے لگے ۔ فقیروں اور خلفا کو سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے ارشاد ہوا کہ ہمارا صندوق ضرور ملے گا مگر جو شخص ہمارے جسم کو چھونے کے لائق اور قابل ہوگا وہ کل صبح سویرے سورج نکلنے کے قریب یہاں آئے گا اور وہی ہمارا صندوق نکالے گا،اس وقت تک دریا غلبہ نہیں کرے گا ۔ درویشوں کو اس اشارے سے تسلی ہوئی اور حکمتِ غیبی کے ظہور کا انتظار کرنے لگے ۔ جب مقررہ وقت آیا تو ایک سبزنقاب پوش شخص ظاہر ہوا ۔ اس نے چہرہ پر سے نقاب نہ اٹھائی اورآتے ہی بلاتامل اس مٹی میں سے جو فقیروں اور خلفا نے کھو د رکھی تھی حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق نکالا ۔ ہزاروں لوگ جمع ہوگئے ۔ انہوں نے زیارت کی۔ دیکھا تو حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ گویا سوئے ہوئے تھے اور ریش مبارک سے غسل کے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے ۔ جب صندوق کھولا گیا تو میلوں تک خوشبو پھیل گئی، اکثر حاضرین کو جذبہ اور وجد ہوگیا ۔ میرے مرشد پاک سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ نے ایک مرتبہ مجھ سے منتقلی مزار کے متعلق گفتگو فرماتے ہوئے فرمایا’’ جانتے ہو وہ نقاب پوش کون تھا؟‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضور بہتر جانتے ہیں۔‘‘ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے فرمایا’’وہ خو د حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ تھے۔‘‘
دریائے چناب کے مشرقی کنارہ پر گڑھ مہاراجہ کی طرف بستی سمندری میں ایک ویران کنواں اور حویلی تھی اور کنویں پر پیپل کا بہت قدیم درخت تھا ۔ جو شخص اس حویلی میں قدم رکھتا بے ہوش ہوجاتا ۔ یہاں تک کہ مال مویشی بھی اس میں داخل نہ ہوسکتے تھے ۔ لوگ خوفزدہ ہو کر اس حویلی اور کنویں کو ویران چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ وہ حویلی پاک اور منزّ ہ تھی۔ سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کی طرف سے حکم ہوا کہ ہمارا مزار اب پیپل والی حویلی میں بنایا جائے کیونکہ یہی جگہ ہمارے لئے مقرر اور معین ہے ۔ پس درویشوں نے حویلی کے وسط میں جو مذکورہ بالا کنویں کے مغرب کی طرف تھی، آپؒ کا مزار بنایا ۔ صندوق مبارک زمین کے اندر دفن نہ کیا گیا بلکہ زمین کے اوپر رکھ کر مزار مبارک بنایا گیا۔ اس جگہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا مزار 157برس ( 1180ھ تا 1336ھ، 1767۔1917) تک رہا۔ حسبِ پیشگوئی حضرت سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ دریا پھر دربارِ مقدس کے قریب آپہنچا ۔ یہ واقعہ1336ھ کا ہے ۔ اس دریا بردی کے وقت سلطان حاجی نور احمد رحمتہ اللہ علیہ سجادہ نشین تھے۔ جب دربار شریف کے فقیر حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق مبارک تربت مبارک سے نکالنے لگے تو آپ رحمتہ اللہ علیہ کے ساتھ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد کے جتنے مزارات تھے سب کے صندوق ملتے چلے گئے مگر حضرت سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے مزارِ انور سے صندوق مبارک بصد کوشش اور بعد از کمال جستجو کے ایک بار پھر نہ مل سکا جس سے تمام حاضرین کو سخت پریشانی ہوئی۔
مگر چونکہ آپ رحمتہ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے مخلوقِ خدا کی راہنمائی کیلئے پیدا فرمایا ہے اور ہر کافر اور مومن ،بے نصیب اور بانصیب ،زندہ اور مردہ کیلئے فیضِ زماں بنا کر بھیجا ہے، اس نازک دور میں دینی خدمات سرانجام دینے اورمخلوقِ خدا کی راہنمائی کیلئے خاتم النبیین حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا خلیفہ اور صحیح جانشین مقرر فرمایا ہے اس لئے آپ رحمتہ اللہ علیہ نے لازمی ظہور فرمانا تھا۔ اس وقت کی پوشیدگی میں کوئی مصلحت تھی ۔ چنانچہ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے خواب میں حضرت سلطان دوست محمد رحمتہ اللہ علیہ کو اپنی زیارت سے مشرف فرما کر اس بے چینی کو دور کردیا اور اسی مقام سے زمین کو کھودنے کا حکم فرمایا۔ دوسرے روز اسی مقام سے علی الصبح زمین کھودنے پر صندوق کے آثار نمایاں ہونے لگے ۔ تھوڑی سی مٹی ہٹائی گئی تو خوشبو کے حلے آنے شروع ہوگئے۔ اس خوشبو کی مثال دنیا میں نہیں ملتی تھی۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق تو مل گیا مگر کثرتِ خوشبو کے سبب اب وہاں ٹھہرنا محال ہوچکا تھا ۔ قبر شریف کے اندر کوئی شخص پورے پندرہ منٹ بھی نہیں ٹھہر سکتا تھا ۔ بمشکل صندوق باہر نکالنے کا کام سرانجام دیا گیا ۔ اس خوشبو کی تاثیر کا یہ عالم تھا کہ اس کام میں شریک ہونے والے لوگوں کے لباس پھٹتے پھٹ گئے مگر خوشبو ان میں جوں کی توں باقی رہی ۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق مبارک 1336ھ (اکتوبر1917) کو دس محرم سے پہلے پہلے نکال کر محفوظ کر لیا گیا۔ اس دربار شریف سے شمال مغربی گوشہ میں ایک میل کے فاصلہ پر موجودہ محل شریف کی تعمیر شروع کی گئی اور چھ ماہ کے عرصہ میں محل شریف، مسجد شریف اور ارد گرد جو متعدد حجرات موجود ہیں، تیار ہوگئے۔ اس محل شریف میں آپ رحمتہ اللہ علیہ کا صندوق مبارک اپریل1918ء بروز جمعہ دفن کیا گیا ۔
موجودہ دربار شریف ایسی جگہ واقع ہے جس کے چاروں طرف اچھی خاصی آبادی ہے ۔ یہاں سے دو میل کے فاصلہ پر شہر گڑھ مہاراجہ ہے، جنوب کی طرف احمد پور سیال، مشرق کی طرف دریائے جہلم اور چناب کو عبور کر کے شہر شور کوٹ اور مغرب کی طرف ڈیڑھ میل کے فاصلہ پر مظفر گڑھ روڈ گزرتی ہے ۔ آج کل دربار شریف جانے والے زائرین کو بڑی سہولت ہے کیونکہ دربار شریف تک پختہ سڑک بنی ہوئی ہے۔ احمد پور سیال اور گڑھ مہاراجہ دونوں طرف سے آنے والے زائرین رات دن میں جب چاہیں دربار شریف پہنچ سکتے ہیں۔ اب تو شورکوٹ تک موٹروے تعمیر ہوچکی ہے جو شورکوٹ کو پورے ملک سے ملاتی ہے۔ اس کے علاوہ شورکوٹ اور دربار شریف کے درمیان دریائے چناب پر پل کی تعمیر سے سفر بہت آسان ہو گیا ہے۔ دریائے چناب پر نو تعمیر شدہ اس پل کے ذریعے جھنگ کی طرف سے آنے والے زائرین بھی اب براستہ شورکوٹ دربار تک بہت آسانی سے اور کم وقت میں پہنچ جاتے ہیں۔
مزار مبارک سے لاکھوں طالبانِ حق فیض پاتے ہیں ۔ سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پاک کی یہ کرامت بہت مشہور ہے کہ دربار پاک کے اندر داخل ہوتے ہی آنکھوں سے بے اختیار آنسو جاری ہوجاتے ہیں ۔ اس مزار مبارک سے جہاں بھر کو فیض پہنچتا ہے ۔ ہزار ہا زیارت کرنے والے اور سائل اپنی مرادیں پاتے ہیں اور ہزاروں عاشقانِ الٰہی حاضری دیتے اور فیض پاتے ہیں ۔ ہزاروں لوگ آپ رحمتہ اللہ علیہ کی توجہ سے آپ رحمتہ اللہ علیہ کے مزار پاک سے صاحبِ احوال اور صاحبِ تلقین وارشاد ہوئے ہیں ۔ اس مزار پاک کی لاکھوں کرامات محفوظ ہیں۔
یہ دربار پاک ہر قسم کی بدعت والی رسوم سے بھی پاک اورمحفوظ ہے ۔ سینکڑوں صاحبِ حال فقیر اللہ تعالیٰ کے مشاہدہ اور دیدار کیلئے معتکف رہتے ہیں ۔ مزار پاک کے اندر داخل ہونے کے بعد باہر نکلنے کو دل نہیں چاہتا اور جو اس دربار پر طلبِ حق کا سوال کرتا ہے اسے تو کبھی خالی لوٹایا ہی نہیں جاتا ۔
نام فقیر تنہاں دا باھوؒ، قبر جنہاں دی جیوے ھوُ