عشق حقیقی
سلطان العارفین کی تعلیمات کی روشنی میں
تحریر : صائمہ واجد سروری قادری۔ لاہور
تمام تعریفیں اللہ کے لیے ہیں جو تمام جہانوں کا پروردگار ہے، تمام مخلوق کا خالق اور روزی دینے والا ہے۔ لم یزل اور لا یزال ہے۔ دونوں جہانوں میں ھُو کے سوا کچھ نہیں اور نہ ہی اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق ہے۔ لاکھوں کروڑوں درودوسلام ہو سرورِ کائنات، باعثِ وجودِ کائنات، آقاو مولیٰ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی ذاتِ مطہرہ پر، آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آل پاکؓ پر اور صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پراور آپ ؐ کے محبوبین پر جن کی پیروی ہر مسلمان پر فرض ہے۔
کائنات کی ہر شے اللہ تعالیٰ کی صفات کی مظہر ہے لیکن انسان اشرف المخلوقات اس لیے کہلایا کہ ربِّ کائنات کی لامحدود ذات اپنی تمام تر تجلیات کے ساتھ انسان کے اندر موجود ہے۔ اللہ پاک نے وحدت سے نکل کر کثرت میں ظہور فرمایا تو سب سے پہلے اپنی ذات سے نورِ محمدی کو ظاہر فرمایا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نور سے تمام ارواح کوپیدا کیا۔ ان ارواح نے ازل میں اللہ کا دیدار کیا اور اسے اپنا معبود تسلیم کیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے انہیں بشری لباس پہنا کر عالمِ خلق کی امتحان گاہ میں بھیجا ۔ گویا انسان کا ظاہر ایک عالم ہے جس کی حقیقت دنیا ہی کی طرح فانی ہے اور اس کا باطن ایک مکمل الگ جہان ہے جہاں اللہ پاک کی ذات موجود ہے اوروہ ہمیشہ باقی رہنے والی ہے۔ لہٰذا بشری وجودمیں رہتے ہوئے باطنی جہان میں روح پر پڑے تمام حجابات اٹھا کر معبودِ حقیقی کی پہچان، اس کا دیدار اور اس تک پہنچ جانا ہی واحد مقصدِ حیات ہے۔ روح کے اس سفر کا آغاز طلب اور عشقِ الٰہی سے ہوتا ہے۔ عشقِ الٰہی سے ہی دیدارِ الٰہی ممکن ہے اور عشق کی آگ ہی غیر اللہ کو جلا کر راکھ کر دیتی ہے اور یہی عشق دنیا وآخرت میں نجات کا سبب بنتا ہے ۔ اللہ نے اللہ پاک سے شدید محبت کو مومنین کی صفت قرار دیا ہے اور عشق کا خمیر انسان کی روح میں شامل ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:
وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًا لِّلّٰہِ۔(البقرہ165)
ترجمہ: اور جو ایمان لائے اللہ کے لیے ان کی محبت بہت شدید ہے ۔
یعنی اللہ تعالیٰ پر ایمان کا مطلب ہے اللہ تعالیٰ سے شدید محبت کرنا۔ محبت تو انسان کو بہت سے رشتوں اور اشیا سے ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ماں، باپ، بیوی، بچے، بہن، بھائی، رشتہ دار، دوست، گھر، زمین، جائیداد اور کاروبار وغیرہ کی محبت دلوں میں ڈال رکھی ہے لیکن حقیقی محبت تو اللہ تعالیٰ اور اس کے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ہی ہے جیسا کہ حدیث مبارکہ ہے:
ترجمہ: ’’ اس وقت تک تمہارا ایمان کامل نہیں ہوسکتا کہ جب تک میں تم کو تمہاری جان، بیوی بچوں، گھربار اور ہر چیز میں سب سے زیادہ پیارا نہیں ہو جاتا۔ ‘‘ (بخاری ومسلم)
اس حدیث مبارکہ سے پتہ چلتا ہے کہ عشق باقی تمام محبتوں پر حاوی ہو جاتا ہے۔
عشق مستی و جنون ہے۔ عشق وفا اور قربانی ہے۔ عشق مقامِ فنا ہے ۔ یعنی اپنی ہستی کو مٹا کر معشوق کی ہستی میں اس طرح فنا ہو جانا جہاں میں اور توکا فرق بھی مٹ جائے۔
کائنات کی ابتدا عشق ہے اور انسان کی تخلیق عشق کے لیے ہوئی۔ اللہ تعالیٰ کی ذات پاک مخفی اور پوشیدہ تھی پھر اللہ تعالیٰ کی ذات کے اندر ایک جذبہ پیدا ہوا کہ میں پہچانا جاؤں۔ ذاتِ احد میں پہچان کا یہ جذبہ اور چاہت اس شدت سے ظہور پذیر ہوئی کہ اس نے عشق کی صورت اختیار کر لی۔ لہٰذا یہ عشق اور چاہے جانے کا جذبہ ہی تھا جس نے خدائے واحدکو گوشۂ تنہائی سے نکل کر کثرت میں ظہور پر مائل کیا ، اسی جذبہ عشق میں اللہ تعالیٰ نے نورِ احمدی سے تمام مخلوقات کی ارواح تخلیق فرمائیں۔ جیسا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ارشاد مبارک ہے کہ
ترجمہ: ’’میں اللہ تعالیٰ کے نور سے ہوں اور تمام مخلوق میرے نور سے ہے۔‘‘
پس جیسے اللہ کا نور، نورِ محمدی کے ذریعے ارواحِ انسانی میں منتقل ہوا اسی طرح جذبۂ عشق بھی ہر روح کے حصے میں آیا۔ لیکن دنیا میں آنے کے بعد انسان اس جذبۂ عشق کو‘ جو صرف اللہ اور اس کے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا حق ہے، فانی رشتوں اور اشیا پر لٹا دیتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں یوں کہا جائے کہ جو جذبہ اسے قرب و دیدارِ الٰہی حاصل کر کے اپنی اخروی زندگی سنوارنے کے لیے ملا تھا اسے فانی دنیا کی خاطر ضائع کر دیتا ہے۔ شریعتِ محمدی کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دنیاوی رشتوں اور کاروبارِ زندگی کو سرانجام دینا بھی ضروری ہے لیکن ان میں مگن ہو کر خالق و معبودِ حقیقی کے عشق کو پسِ پشت ڈال دینا سراسر ظلم و زیادتی ہے۔ سچے طالبانِ مولیٰ اس حقیقت کو سمجھتے ہیں لہٰذا وہ اپنے محبوب نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے اللہ سے اپنا تعلق بھی عشق کے ذریعے مضبوطی سے استوار رکھتے ہیں اور دنیاوی معاملات بھی بخوبی نبھاتے ہیں، البتہ ان کی سوچ اور نگاہ کا مرکز اور ان کے ہر جذبے کا رخ صرف اور صرف اللہ کی طرف ہوتا ہے۔ ان کا نفس، ان کا قلب، ان کی روح عشق کی آگ میں مسلسل جل رہے ہوتے ہیں۔ پس یہ آگ ہی ان کی حیات ہے۔ انہیں دوزخ کی آگ کا کیا خوف! کہ وہ تو عشقِ الٰہی کی آگ میں جل کر خود آگ بن چکے ہوتے ہیں۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ محک الفقر کلاں میں فرماتے ہیں:
* اے زاہد! تو مجھے آتشِ دوزخ سے کیوں ڈراتا ہے؟ میرے اندر تو عشقِ الٰہی کی وہ آگ بھری ہے کہ اگر میں اس کا ایک ذرّہ دوزخ میں ڈال دوں تودوز خ جل کر راکھ ہو جائے۔
* اگر عاشق پر حال وارد ہو جائے اور وہ آتشِ محبت کی ایک آہ کھینچ لے یا جلالیت کی نگاہ سے دیکھ لے تو مشرق سے مغرب تک روئے زمین کی ہر شے جل کر نیست و نا بود ہو جائے۔
* الٰہی! مجھے سوزِ عشق عطا فرما کہ یہ تیرا عمدہ انعام ہے۔ اگر کوئی اس سے ڈرتا ہے تو یہ مجھے عطا فرما دے ۔
* عاشق اسے کہتے ہیں جو دیدارِ حقِ تعالیٰ میں غرق ہو اور اگر وہ قہرو جلالیت، ذکر حضوری اور باطن معموری سے ایک آہ بھی بھر دے تو بے شک اسمِ اللہ اور ذکرِ اللہ کی گرمی سے مشرق سے مغرب تک ایک سرے سے دوسرے سرے تک ساری دنیا جل کر راکھ ہوجائے۔
* عارف کلامِ غیر بولنا یاسننا ہرگز پسند نہیں کرتے کہ وہ ہر وقت عشقِ الٰہی کی حیرت وحرارت میں جلتے رہتے ہیں۔
* معرفت ومحبتِ الٰہی عاشقانِ اہلِ عرفان کانصیبہ ہے ۔
* اپنے نفس کو مار دینے کا نام عشق ہے۔
* ذوق آتشِ عشق میں خود کو جلانے کا نام ہے۔
آپؒ طالبانِ مولیٰ کو نصیحت کرتے ہیں:
* کنج معرفت میں اپنے محبوب کا ہم مجلس ہو جا۔ اگر تجھ میں عقل و شعور ہے تو معرفتِ حق میں غرق ہو جا کہ عاشقوں کے مرنے کا انداز یہی ہے۔ پس اس راہ میں سر اگرجاتا ہے توجانے دے۔
* عاشقوں کی ریاضت باطن میں خونِ جگر پینا ہے۔ تُو ان کے احوالِ ظاہر پر مت جا۔
* راہِ عشق میں پروانے کی طرح خود سے بیگانہ ہو جا۔
* راہِ عشق میں پیار سے مردانہ وار قدم رکھ۔ اس میں اگر سر جاتا ہے تو جانے دے۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ محکم الفقرا میں فرماتے ہیں:
* فقیر دو قسم کے ہوتے ہیں ایک سالک دوسرے عاشق۔ سالک صاحبِ ریاضت و مجا ہدہ ہوتا ہے اور عاشق صاحبِ راز و مشاہدہ۔ سالک کی انتہا عاشق کی ابتدا ہے کیونکہ عاشق کا کھانا مجاہدہ اور نیند مشاہدہ ہوتا ہے ۔
عشقت بتن آمد اکنون چہ کنم جان را
زیر آنکہ نشاید یک ملک دو سلطان را
ترجمہ: جب سے تیرا عشق میرے وجود میں آیاہے اب میں اپنی جان کا کیا کروں کیونکہ ایک ملک دو باد شاہوں کے زیرِ حکمرانی نہیں ہو سکتا۔
* عا شقوں کو کبھی کوئی خوف نہیں ہو تا اور نہ ہی انہیں کسی ملامت کرنے والے کی ملامت سے کوئی ڈر ہوتا ہے ۔
اے زاہد! بہشت کے مزدور سن! عاشقوں کا کھانا سراسر نور، ان کا پیٹ مثلِ آتشِ تنور اور ان کی نیند وصالِ حضور ہے۔
* عشق ایک ایسا لطیفہ ہے جو غیب سے دل میں پیدا ہو جاتا ہے اور معشوق (کے دیدار) کے سوا کسی بھی چیز سے قرار نہیں پکڑتا۔
* اللہ تعالیٰ نے اپنے علمِ ِ قدرت سے چاہا کہ اہلِ عشق کو عالمِ موجودات میں پیدا کرے تو زمین بنائی اور اس زمین کی مٹی پر شوق اور اشتیاق کی نظر سے دیکھا۔اس نگاہ کی تجلی اور اسرارِ عشق سے وہ مٹی جنبش میں آ گئی اور عالمِ مستی میں آکر فریاد کرنے لگی :
اَنَا اَلْمُشْتَاقُ فِی لِقَآ ءِ رَبِّ الْعَالَمِیْن ترجمہ: میں ربّ العالمین کے دیدار کی مشتاق ہوں۔
تب ہی اللہ نے اس زمین سے عاشق پیدا فرمائے جو آخر تک عالمِ مستی اور دریائے محبت میں غرق ہیں۔ اگر انہیں آگ میں ڈالا جائے تو ایسی صد ہزار آتشِ دوزخ ان کے محبت کے باعث سرد ہو جائیں گی۔
* حضور علیہ الصلوٰۃ السلام نے فرمایا :
فَوَادُ قَلْبِیْ نَارٌ لِلْجَحِیْم ھُوَ یَبْرُدُھَا
ترجمہ: میرے قلب میں ایسی آگ ہے جس کے مقابلے میں دوزخ کی آگ بھی سرد ہے ۔
جو دِل آتشِ عشق میں نہ جلا اسے آتشِ دوزخ جلائے گی ۔
بیت:
مرا شد چنان آتش منزلم
کہ آتش گرفتہ ز آتش دلم
ترجمہ : آتشِ عشق کے باعث میرا وجود ہی آتش ہو گیا ہے کہ ہر کوئی میرے دل سے آتشِ عشق لے رہا ہے ۔(محکم الفقرا)
حضرت سخی سلطان باھورحمتہ اللہ علیہ ’’عین الفقر‘‘ میں عشقِ حقیقی کی حقیقت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
* میں نہ زاہد ہوں، نہ متقی، نہ پرہیز گار ہوں، نہ ہی راتوں کو جاگ کر عبادت کرنے والا ہوں بلکہ میں فنا فی اللہ ہوکر اپنے محبوب سے مل گیا ہوں۔
* عشق دو قسم کے ہو تے ہیں۔ عشقِ حقیقی اور عشقِ مجازی۔ عشقِ حقیقی وہ ہے جس میں اللہ کے سوا اور کچھ یاد نہ رہے۔ اور عشقِ مجازی وہ ہے جس میں طالب پر ذکر اسمِ اللہ ذات کے اثرات سے سکرو مستی، وجد و جذب و مجذوبیت کی کیفیات طاری ہو جائیں اور معشوق (مرشد کامل اکمل) کو پہچان کر اس کا عاشق و دیوانہ بن جائے۔ اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس ۔
اگر در خوابم غرقِ توحید خدا یارم
وگر بیدارم باخدا یارم و ہوشیارم
ترجمہ : میں نیند کی حالت میں بھی اپنے محبوب اللہ کی توحید میں غرق ہوتا ہوں اور بیداری کے دوران بھی اللہ تعالیٰ کے قرب میں ہوشیار رہتاہوں۔
* عشق کی آگ وہ آگ ہے جو عاشق درویش کے دل کے سوا کہیں قرار نہیں پکڑتی۔
اسی عشق کی وجہ سے حضرت موسیٰ علیہ السلام نے دیدارِ الٰہی کی خواہش کی اور مناجات میں عرض کی :
رَبِّ اَرِ نِیْٓ اَنْظَرْ اِلَیْکَ (الاعراف ۔143)
ترجمہ: اے اللہ مجھے (اپنا جلوہ) دکھا کہ میں تیرا دیدار کر لوں۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام تجلیہ عشق کے انوار سے مشرف ہوئے تو حضرت موسیٰ علیہ السلام کا چہرۂ اقدس اس تجلی کے انوار سے روشن ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلا م کو فرمایا ’’اے موسیٰ! اپنے چہرہ کو نقاب سے چھپا لیں۔ ‘‘ حضرت موسیٰ علیہ السلام اپنے چہرہ پر جو بھی نقاب ڈالتے وہ آتشِ عشق سے جل جاتا ہے ۔
بجز دیدارِ حق مردار باشد
کہ عاشق طالبِ دیدار باشد
ترجمہ : اللہ تعالیٰ کے دیدار کے سوا ہر چیز مردہ ہے۔ عاشق صرف اور صرف دید ارِ الٰہی کی طلب کرتا ہے۔‘‘
* جو نفس پاک ہو کر روح کے ساتھ مل گیا وہ نفس اللہ کی روح بن جاتا ہے اور صرف اللہ کی طلب میں اس کی عبادت کرتا ہے۔ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا سے اللہ نے پوچھا کہ آپ اللہ کی عبادت کس غرض سے کرتی ہیں؟ دوزخ کے خوف سے یا جنت کی اُمید میں؟ حضرت رابعہ بصری رحمتہ اللہ علیہا نے عرض کی ’’اے اللہ! اگر میں دوزخ کے خوف سے تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے دوزخ میں جلا دے اوراگر میں جنت کی خاطر تیری عبادت کرتی ہوں تو مجھے کبھی جنت نصیب نہ کرنا اور اگر میں تیری عبادت صرف تیرے لیے کرتی ہوں تو مجھے اپنے دیدار اور جمال سے محروم نہ رکھنا۔‘‘
* جو لوگ ہمیشہ اللہ کی محبت میں غرق رہتے ہیں اللہ تعالیٰ قیامت سے پہلے ہی ان کا مقصودانہیں عطاکر دیتا ہے اور انہیں اپنی تجلیات کے انوار سے مشرف کردیتا ہے ۔
بیا در عشق جانی خوش بدہ خویش
کہ ہر دم می برآید جان درویش
ترجمہ: آ! عشق میں اپنی جان کو خوشی سے قربان کر دے کیونکہ درویش کی جان ہر سانس کے ساتھ نکلتی رہتی ہے۔
* فقیر عاشق اللہ تعالیٰ کا راز ہے۔ جو اس راز کو پہچان لیتا ہے وہ اس راز کو حاصل کر کے اس راز کا راز ہو جاتا ہے ۔ (عین الفقر)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ کے فلسفۂ فقر میں عشق ہی کامیابی کی کلید ہے اور عشق ہی اللہ تعالیٰ کی بارگاہ تک پہنچاتا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
عاشق بیچارہ را جان با جاناں است
کہ ہر دم شوق خوش ترانہ آمد
ترجمہ: عاشق بیچارے کی جان محبوب میں اٹکی رہتی ہے اور وہ ہر وقت عشق و محبت کے ترانے گاتارہتا ہے ۔
عشق دانی چیست؟ کشتن نفس خویش
روز و شب سوزش بود دِل را ریش
ترجمہ : تو جانتا ہے کہ عشق کیا چیز ہے؟ اپنے نفس کو مار دینے کا نام عشق ہے۔ عشق وہ چیز ہے کہ جس کی کاٹ سے دل ہر وقت سوزش میں مبتلا رہتا ہے ۔
زیں مراتب عاشقاں مذکور شد
ابتدا ہم نور آخر نور شد
ترجمہ : عاشقوں کا مرتبہ اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ ان کی ابتدا بھی نور اور انتہا بھی نور ہوتی ہے ۔
جیساکہ ارشادِباری تعالیٰ ہے :
نُوْرٌعَلٰی نُوْرٍ یَہْدِی اللّٰہُ لِنُوْرِہٖ مَنْ یَّشَآءُ (النور۔35)
ترجمہ : نور پر نور چڑھا ہوا ہے۔ اللہ جس کو چاہتا ہے اپنے نور سے بہرہ ور کر دیتا ہے ۔
باھُو عاشقاں را راز این است ذکرِ ھُو گوید دوام
دم بدم ذکرِ ’’ھُو‘‘ گوید کار آن گردد تمام
ترجمہ : اے باھوؒ ! عاشقانِ الٰہی کا یہی ایک راز ہے کہ ہر وقت ذکرِ ھو میں غرق رہتے ہیں کہ ان کا کام ہی ہر دم ذکرِ ھو میں غرق رہنا ہے ۔
حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ عاشق کے بارے میں اپنی کتاب ’’نورالہدیٰ کلاں‘‘ میں فرماتے ہیں:
* فقیر کامل مکمل عاشق اور فقیر اکمل جامع اللہ تعالیٰ کا معشوق ہوتا ہے۔ فقیر کا انتہائی مرتبہ شرفِ دیدار ہے اور جو فقیر عاشقِ خدا ہے وہ معشوقِ محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہے۔ فقیر کی یہ بات من گھڑت نہیں بلکہ اس آیت مبارکہ کے عین مطابق ہے ’’ محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ان لوگوں کی معیت میں رہا کریں جو رات دن اپنے ربّ کی بارگاہ میں دیدارِ الٰہی کی خاطر ملتجی رہتے ہیں، ان کو چھوڑ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی آنکھیں زینتِ دنیا کی تلاش میں نہ پھِرا کریں اور اس کا کہا نہ مانیں جس کے دل کو ہم نے اپنے ذکر سے غافل کردیا۔ وہ تو خواہشِ نفس کا غلام ہے اور اس کا کام ہی حد یں پھلانگنا ہے۔‘‘ (سورۃالکہف۔ 28)
رسالہ روحی شریف میں حضرت سخی سلطان باھو ؒ عشقِ حقیقی کے سلسلہ میں فرماتے ہیں:
* منزلِ فقر میں بارگاہِ کبریا سے حکم ہوا تُو ہمارا عاشق ہے۔ اس فقیر نے عرض کی ’’عاجز کو حضرتِ کبریا کے عشق کی توفیق نہیں ہے ‘‘ پھر حکم ہوا ’’ تُو ہمارا معشوق ہے ‘‘ اس پر یہ عاجز خاموش ہوگیا۔
آپؒ عشق کی اس منزل تک پہنچنے کے بارے میں فرماتے ہیں:
باھوؒ عشق را بام بلند است اسم اللہ نردبان
ہر مکانے بے نشانے می برد در لامکان
ترجمہ : اے باھوؒ عشق کی چھت بہت بلند ہے اس پر پہنچنے کے لیے اسمِ اللہ ذات کی سیڑھی استعمال کر جو تجھے ہر منزل و ہر مقام بلکہ لا مکان تک پہنچا دے گی ۔
* ’’جو بھی اسمِ اللہ کا ذکر کرتا اور اسے یاد رکھتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کا محبوب بن جاتا ہے۔ (عین الفقر)
حضرت سخی سلطان باھوؒ مرشد کے عشق کو عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا وسیلہ قرار دیتے ہیں۔ آپؒ کے پنجابی ابیات میں سب سے زیادہ ابیات عشق کے موضوع پر ہیں ۔
جنہاں عشق حقیقی پایا، مونہوں نہ کُجھ الاوَن ھُو
ذکر فقر وِچ رہن ہمیشاں، دم نوں قید لگاوَن ھُو
نفسی، قلبی، روحی، سرّی، خفی اخفیٰ ذکر کماوَن ھُو
میں قربان تنہاں توں باھوؒ جیہڑے اکس نگاہ جواوَن ھُو
مفہوم: جن طالبانِ مولیٰ نے عشقِ حقیقی پا لیا ہے وہ زبان سے ذکر نہیں کرتے بلکہ ہمیشہ دل میں ہی ذکر فکر میں محو رہتے ہیں۔ اُن کا ہر سانس ذکرِ یاھوکے ساتھ آتاجاتا ہے اور ان کا وجود نفسی، قلبی، روحی، سرّی، خفی اور اخفیٰ ذکر میں مستغرق اور محو ہوتا ہے۔ میں ایسے مرشد کامل اکمل کے قربان جاؤں جو ایک ہی نگاہ سے مردہ دلوں کو زندہ کر دیتا ہے ۔
حضرت سخی سلطان باھو ؒ کی تعلیمات کے مطابق عشق وہ روحانی جذبہ ہے جو مخلوق کو خالق سے ملا دیتا ہے۔ یہ عشق ہی ہے جس کی بنا پر اللہ کا طالب نفسانی کدورتوں، شیطانی وہمات اور کبیرہ صغیرہ گناہوں سے کنارہ کش ہو کر اللہ کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے۔ عشقِ حقیقی (اللہ تعالیٰ سے عشق) کی ابتدا عشقِ مجازی (مرشد سے عشق) سے ہوتی ہے عشق کی انتہا یہ ہے کہ عاشق عشق کرتے کرتے معشوق بن جاتا ہے اور معشوق عاشق بن جاتا ہے۔ عاشقانِ ذات کا دین تو عشق ہوتا ہے۔ وہ نہ ہی رسمی مسلمانوں کی طرح ہوتے ہیں اور نہ ہی زاہدوں اور ظاہری عابدوں کی طرح مساجد میں سر بسجود رہتے ہیں۔ عاشق تو دین کی اصل حقیقت کو جاننے والے ہوتے ہیں اور ہر دم اور ہر لمحہ دیدارِ الٰہی میں محو رہتے ہیں ۔
یہ عشق ہی ہے جو دیدارِ حق تعالیٰ کا راستہ دکھاتا ہے۔ فقرا نے عشق ہی کے راستہ سے دیدارِ حق تعالیٰ کی نعمت حاصل کی۔
عشق حقیقی کے سفر پر چلنے کے لیے طالبِ مولیٰ کو اپنا ہاتھ مرشد کامل اکمل کے ہاتھ میں دینا لازمی ہے۔ موجودہ دور میں سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس ایک فقیرِ کامل کی حیثیت سے موجود ہیں۔ جو بھی اللہ کو پانا چاہتا ہے وہ جان لے کہ ان کی بارگاہ کے علاوہ اور کوئی سچاراستہ نہیں ہے۔ اللہ پاک سب کو اس راستہ پر چلنے کی توفیق عطافرمائے ۔ آمین