اسم اللہ ذات
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں علم تصور اسمِ اللہ ذات کے اسرار و رموز کو کھول کر بیان فرمایا ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی کتب میں بعض مقامات پر تصور اسمِ اللہ ذات کو علمِ اکسیر اور تصورِ توفیق کے نام سے بھی موسوم کیا ہے۔ تصور اسمِ اللہ ذات تمام باطنی علوم کا معدن و مخزن ہے۔ اس سے باطن میں دو اعلیٰ ترین مقامات دیدارِ حق تعالیٰ اور مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی حضوری حاصل ہوتے ہیں جو کسی دوسرے ذکر فکر سے حاصل نہیں ہو سکتے۔ باطن میں ان سے اعلیٰ اور کوئی مقام نہیں۔
اسمِ اللہ ’’اسمِ ذات‘‘ ہے اور ذاتِ سبحانی کے لیے خاص الخاص ہے۔ علمائے راسخین کا قول ہے کہ یہ اسمِ مبارک نہ تو مصدر ہے اور نہ مشتق یعنی یہ لفظ نہ تو کسی سے بنا ہے نہ ہی اس سے کوئی لفظ بنتا ہے اور نہ اس اسمِ پاک کامجازاً اطلاق ہوتا ہے جیسا کہ دوسرے اسما مبارک کا کسی دوسری جگہ مجازاً اطلاق کیا جاتا ہے۔ گویا یہ اسمِ پاک کسی بھی قسم کے اشتراک اور اطلاق سے پاک، منزّہ ومبرّا ہے۔ اللہ پاک کی طرح اسمِ اللہ بھی احد، واحد اور لَمْ یَلِدْ وَ لَمْ یُوْلَدْ ہے۔
اسمِ اللہ ذات کی انفرادیت اور کمال
اسمِ اللہ ذات اپنے مسمّٰی ہی کی طرح یکتا، بے مثل اوراپنی حیرت انگیز معنویت وکمال کی وجہ سے ایک منفرد اسم ہے۔ اس اسم کی لفظی خصوصیت یہ ہے کہ اگر اس کے حروف کو بتدریج علیحدہ کر دیا جائے تو پھر بھی اس کے معنی میں کوئی تبدیلی نہیں آتی اورہر صورت میں اسمِ اللہ ذات ہی رہتا ہے۔ اسمِ اللہ کا پہلا حرف ’ا‘ہٹا دیں تو لِلّٰہ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’اللہ کے لئے‘‘ اور یہ بھی اسمِ ذات ہے۔ قرآنِ مجید میں ہے:
لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ (سورۃ البقرہ۔284)
ترجمہ: اﷲ ہی کے لئے ہے جو کچھ آسمانوں اور زمین میں ہے۔
اگر اس اسم پاک کا پہلا ’ل‘ ہٹا دیں تو لَہٗ رہ جاتا ہے جس کے معنی ہیں ’’اس کے لئے‘‘ ا ور یہ بھی اسمِ ذات ہے ۔ جیسے ارشادِ ربانی ہے:
لَہُ الْمُلْکُ وَلَہُ الْحَمْدُ چ وَھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ (سورۃ التغابن۔1)
ترجمہ: اسی کے لیے بادشاہت اور حمد وستائش ہے اور وہ ہر چیز پر قادر ہے۔
اور اگر دوسرا ’ل‘ بھی ہٹا دیں تو ھُو رہ جاتا ہے جو اسمِ ضمیر ہے اور اس کے معنی ہیں ’’وہ‘‘۔ یہ بھی اسمِ ذات ہے جیسے کہ قرآنِ مجید میں ہے:
ھُوَ اللّٰہُ الَّذِیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ۔ (سورۃالحشر۔22)
ترجمہ: وہی ﷲ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں مگر ھُو (ذاتِ حق تعالیٰ)۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسمِ اللّٰہ، لِلّٰہ، لَہٗ اور ھُوکے متعلق فرماتے ہیں:
جسے بھی تقویٰ نصیب ہوا اسمِ اللہ ذات ہی سے ہوا۔ اسمِ اللہ ذات سے چار اسم ظاہر ہوتے ہیں: اوّل اسمِ اَللّٰہ جس کا ذکر بہت ہی افضل ہے۔ جب اسمِ اللہ سے ’ا‘ جدا کیا جائے تو یہ اسم لِلّٰہ بن جاتا ہے اور اسمِ لِلّٰہ کا ذکر فیضِ الٰہی ہے۔ جب اسم لِلّٰہ کا پہلا ’ل‘ جدا کیا جائے تو یہ اسم لَہٗ بن جاتا ہے اور اسمِ لَہٗ کا ذکر عطائے الٰہی ہے۔ جب دوسرا ’ل‘ بھی جدا کر دیا جائے تو یہ ’ھُو‘ بن جاتا ہے اور اسم ھُو کا ذکر عنایت الٰہی ہے۔ چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ ترجمہ: نہیں کوئی معبود سوائے ھُو (ذات ِحق تعالیٰ) کے۔ (سورۃ البقرہ۔255 ) اللہ بس ماسویٰ اللہ ہوس۔ (محک الفقر کلاں)
ظہورِ باری تعالیٰ بصورتِ اسمِ اللہ ذات
اللہ تعالیٰ نے جب عالم ِ احدیت سے عالمِ کثرت کی طرف ظہور فرمایا تو اپنی پہچان ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ کے ذریعے کروائی۔ حدیثِ قدسی ہے:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ
ترجمہ: میں ایک پوشیدہ خزانہ تھا پس میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا۔
پوشیدہ خزانہ سے مراد یہ ہے کہ ذاتِ الٰہی اپنے اسما و صفات سمیت پوشیدہ و مخفی تھی۔ پھر ’’ذات‘‘ کے اندر پہچانے جانے کا جذبہ پیدا ہوا جس کی طرف بظاہر فَاَحْبَبْتُ کے سادہ سے لفظ کے ذریعہ اشارہ کیا گیا ہے یعنی ’’تو میں نے چاہا‘‘ مگر یہ چاہت اِس شدت کے ساتھ ظہور میں آئی کہ صوفیا کرام نے اِسے عشق سے تعبیر کیا ہے۔ محبت میں اگر شدت پیدا ہو جائے تو وہ ’’عشق‘‘ بن جاتی ہے۔ یہ جذبۂ عشق ہی تھا جس سے انسان کی تخلیق ہوئی، یہ کائنات وجود میں آئی اور انسان کی تخلیق کا مقصد اللہ پاک کی پہچان اور معرفت کا حصول ٹھہرا جیسا کہ اس نے فرمایا ’’میں نے چاہا کہ میں پہچانا جاؤں تو میں نے مخلوق کو پیدا کیا‘‘۔
سلطان العارفین سلطان الفقر حضرت سخی سلطان باھوؒ فرماتے ہیں:
جان لے!جب اللہ تعالیٰ نے (خود کو ظاہر کرنا) چاہا تو اپنے آپ سے اسمِ اللہ ذات کو جدا کیا جس سے نورِ محمدی ظاہرہوا ۔ اور جب آئینہ قدرت میں اپنی ہی توحید کو نورِ محمدی کی صورت میں دیکھا تو اپنی ہی صورت پر مائل، مشتاق، عاشق اور فریفتہ ہو گیا اور اپنی ہی بارگاہ سے ربّ الارباب حبیب اللہ کا خطاب پایا ۔اور پھر اس نورِ محمد سے اٹھارہ ہزار عالم کی تمام مخلو قات کو پیدا فرمایا۔ (عین الفقر)
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مزید فرماتے ہیں:
اسی نورسے کل مخلوقات نے ظہور پایا اور یہی نورتمام مخلوقات کا رزق بنا۔ (مجالستہ النبیؐ)
اس سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نور کو اسمِ اللہ ذات کی صورت میں ظاہر فرمایا جس سے نورِمحمدی کی تخلیق فرمائی پھر نورِ محمدی سے تمام مخلوقات کی ارواح کو پیدا کیا گیا اور انسانی ارواح کا رزق اسمِ اللہ ذات کا نور ہے۔ اللہ کے بندے جب اللہ کا دیدار، معرفت اور وصال چاہتے ہیں تو یہ دیدار، وصال اور معرفت صرف اسمِ اللہ ذات کی صورت میں ممکن ہے کیونکہ اسمِ اللہ کی صورت میں ذات کے اظہار سے پہلے اللہ کی صورت اور ماہیت کو سمجھنا اور پہچاننا کسی انسان کے لیے سوائے خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ممکن نہیں کیونکہ صرف آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہی اللہ کی اس صورت کا دیدار اور قرب حاصل کرنے والے ہیں۔ اللہ کی معرفت، دیدار اور وصال کے لیے راہِ فقر اختیار کر کے اسمِ اللہ ذات کا تصور اور ذکر ضروری ہے۔ جب ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات سے ارواح کو ان کا رزق مل جاتا ہے تو ان کو وہ قوت و بصیرت حاصل ہو جاتی ہے جس سے وہ اللہ تعالیٰ کو دیکھتی ہیں۔
ذکر اسمِ اللہ ذات
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اَ لَابِذِکْرِﷲِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوْبُ (سورۃ الرعد۔28)
ترجمہ: بیشک ذکرِ اللہ (ذکر اسمِ اللہ ذات) سے ہی قلب (روح) کو اطمینان اور سکون حاصل ہوتا ہے۔
اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ ذکر اسمِ اللہذات روح کا رزق ہے۔ جس طرح جسم کو غذا مل جائے تو اسے سکون آجاتا ہے اسی طرح روح کو ذکر اسمِ اللہ ذات کا نور مل جائے تو اسے سکون حاصل ہو جاتا ہے۔ اسی لیے کوئی بھی عبادت فرض کرنے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے مومنین پر ذکرِ اللہ فرض کیا تاکہ وہ بیدار روح کے ساتھ دیگر فرض عبادات ادا کریں حتیٰ کہ پہلی وحی میں بھی اسمِ اللہ کے ذکر کا حکم ہے:
اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ۔ (سورۃ العلق۔01)
ترجمہ: پڑھ اپنے ربّ کے نام (اسمِ اللہ) سے جس نے خلق کو پیدا کیا۔
اسمِ اللہ کا ذکر ہی انسان کی فلاح، ہدایت اور مغفرت کا ذریعہ ہے۔
وَاذْکُرُو اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ۔ (سورۃ الجمعہ۔10)
ترجمہ: اور کثرت سے اسم اللہ کا ذکر کیا کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ۔
یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا۔ (سورۃ الاحزاب۔41)
ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ کا ذکر کرو اور کثرت کے ساتھ ذکر کرو۔
اسم اللہ کا ذکر ایسا عمل ہے جو انسان کے دل میں نورِ ایمان پیدا کرتا ہے۔ اس لیے ذکرِ اللہ سے غافل انسان کو گمراہ قرار دیا گیا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
اَفَمَنْ شَرَحَ اللّٰہُ صَدْرَہٗ لِلْاِسْلَامِ فَھُوَ عَلٰی نُوْرٍ مِّنْ رَّبِّہٖ ط فَوَیْلٌ لِّلْقٰسِیَۃِ قُلُوْبُھُمْ مِّنْ ذِکْرِاللّٰہِط اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍ مُّبِیْنٍ۔ (سورۃ الزمر۔22)
ترجمہ: جس شخص کا سینہ اللہ (اسم اللہ ذات کے ذکر) نے اسلام کے لیے کھول دیا وہ شخص اپنے ربّ کی طرف سے نور اور روشنی میں آگیا۔ (اس کے برعکس) ہلاکت و بربادی ہے اس شخص کے لیے جس کا دل اتنا سخت ہے کہ ذکرِاللہ میں نہیں لگتا۔ وہ صریح گمراہی میں پڑا ہوا ہے۔
ذکرِ اللہ سے غافل انسان کو گمراہ اس لیے قرار دیا گیا ہے کیونکہ وہ شیطان کی پیروی کرتا ہے اس لیے کہ شیطان ہی ہے جو ذکرِ اللہ سے روکتا ہے۔ فرمانِ الٰہی ہے:
اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَالْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَیَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِاللّٰہِ وَعَنِ الصَّلٰوۃِ (سورۃ المائدہ۔91)
ترجمہ: بے شک شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب و جوئے کے ذریعہ تم کو ایک دوسرے کا دشمن بنائے اور تمہارے دِلوں میں ایک دوسرے کے خلاف بغض پیدا کر دے اور تمہیں ذکرِ اسمِ اللہ اور نماز سے روکے۔
ذکرِاللہ سے غافل انسان کو خسارے کی وعید سنائی گئی ہے اور اِس شخص کی پیروی سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس سے کنارہ کشی کا بھی حکم دیا گیا ہے:
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلَادُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ ج وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ (سورۃ المنافقون۔9 )
ترجمہ: اے ایمان والو! تمہارے مال اور اولادیں تم کو ذکر ِاللہ سے غافل نہ کر دیں، جو لوگ ایسا کریں وہی خسارہ پانے والے ہیں۔
احادیثِ مبارکہ میں ذکر ِاللہ کو سب سے افضل عمل قرار دیا گیا ہے۔
حضرت ابو سعید خدریؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سے دریافت کیا گیا ’’کون سا بندہ اللہ کے نزدیک قیامت کے دن افضل اور بلند مرتبہ ہوگا؟‘‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ذکرِاللہ کثرت سے کرنے والے مرد اور عورتیں۔‘‘ عرض کیا گیا ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم! کیا ان کا درجہ اس شخص سے بھی بڑھا ہوا ہے جو راہِ خدا میں جہاد کرے؟‘‘ حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ’’ہاں! اگر کوئی اپنی تلوار کفار و مشرکین پر چلائے یہاں تک کہ اُس کی تلوار ٹوٹ جائے اور وہ خود خون سے رنگین ہو جائے پھر بھی ذکرِ اللہ کرنے والا اس سے مرتبہ میں افضل ہے۔‘‘ (احمد، ترمذی3376)
حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام نے فرمایا:
اَلْاَنْفَاسُ مَعْدُوْدَۃٌ
وَکُلُّ نَفْسٍ یَّخْرُجُ بِغَیْرِ ذِکْرِاللّٰہِ تَعَالٰی فَھُوَ مَیِّتٌ
ترجمہ: سانس گنتی کے ہیں اور جو سانس ذکرِاللہ کے بغیر نکلے وہ مردہ ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
جو دَم غافل سو دَم کافر، سانوں مرشد ایہہ پڑھایا ھوُ
سنیا سخن گیاں کھل اَکھیں، اساں چِت مولا وَل لایا ھوُ
کیتی جان حوالے ربّ دے، اساں ایسا عشق کمایا ھوُ
مرن توں اَگے مر گئے باھوؒ، تاں مطلب نوں پایا ھوُ
مفہوم: ہمیں مرشد نے یہ سبق پڑھایا ہے کہ جو سانس بھی اسمِ اللہ ذات کے تصور اور ذکر کے بغیر نکلتا ہے وہ کافر ہے۔ جب سے ہم نے یہ ارشاد سنا ہے اپنا دل اس طرف ہی لگا لیا ہے۔ ہم نے عشق کا ایسا سودا کیا ہے کہ اپنی جان اور زندگی کا ہر لمحہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے سپرد کر دیا ہے اور اپنی مرضی و منشا سے دستبردار ہوگئے ہیں۔ وصالِ الٰہی تو اُن کو نصیب ہوتا ہے جو مرنے سے پہلے مر جاتے ہیں۔
جب طالبِ مولیٰ کے وجود میں اسمِ اللہ ذات تاثیر کرتاہے تو اس پر معرفت کا رنگ چڑھ جاتا ہے جس کی بدولت وہ کمال کو پہنچ جاتاہے، اس کے وجود سے دوئی ختم ہو جاتی ہے اور وہ اپنی مراد حاصل کرلیتاہے۔ جب وہ اپنے دل کی طرف چشم ِ عیاں سے نظر کرتا ہے تو دیکھتا ہے کہ اس کے سر سے پاؤں تک ہر بال پر اسمِ اللہ نقش ہے اور اس کے تمام وجود پر اسمِ اللہ لکھا ہے۔ اس کے ہر بال، گوشت پوست، ہڈیوں، رگوں، مغز اور دل کو زبان مل گئی ہے (جن سے وہ ذکر ِ اللہ کر رہے ہیں)۔ وہ درودیوار، بازار اور درختوں پر جس طرف بھی دیکھتاہے اسے اسمِ اللہ کا نقش ہی نظر آتا ہے۔ وہ جوکچھ سنتا یا بولتا ہے اسمِ اللہ سے ہی سنتا اور بولتا ہے۔(شمس العارفین)
تصور اسمِ اللہ ذات
اللہ تعالیٰ نے کائنات کی تخلیق محض اس غرض سے کی کہ اُس کی پہچان ہو، اس کے جلال و جمال کے جلوے آشکار ہوں اور اس کے حسن و جمال پر مر مٹنے والا کوئی عاشق ہو۔ سو انسان کی پیدائش کی اصل غرض و غایت اللہ کی معرفت اور پہچان ٹھہری۔ کسی چیز کی پہچان کا سب سے اعلیٰ اور عمدہ ذریعہ آنکھ اور بصارت ہے۔ ’’دیکھنے‘‘ سے کسی بھی چیز کی پوری پوری پہچان ہو جایا کرتی ہے۔ دیگر حواس اور اعضا شناخت کے کمزور اور ناقص آلے ہیں اس لیے آنکھ سے کیا جانے والا اسم اللہ ذات کا تصور اور سانسوں سے کیا جانے والا ذکر ہی ذریعۂ معرفت اور وسیلۂ دیدارِ پروردگار ہے۔
تصور کے لغوی معنی خیال، دھیان، تفکر اور مراقبہ کے ہیں۔ تصور سے اسمِ اللہ ذات کو اپنے دل پر نقش کرنے سے یہ انسان کی باطنی شخصیت (روح) پر اثر انداز ہو کر اسے بیدار کرتا ہے اور جب سالک کی باطنی آنکھ کھل جاتی ہے تو اسے نورِ بصیرت حاصل ہو جاتا ہے جس سے اللہ تعالیٰ کی پہچان اور معرفت حاصل ہوتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کے ذاتی جلوے اور مشاہدے میں محو ہو جاتا ہے۔ ذکر و تصور اسمِ اللہ ذات ہی وہ صراطِ مستقیم ہے جس پر چل کر پاکیزہ لوگ انعام یافتہ کہلائے کیونکہ تصور اسمِ اللہ ذات ہی سے انسان کا سینہ اسلام کی روشنی سے صحیح طور پر منور ہوتا ہے۔ اس کے برعکس جس نے ذکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات سے روگردانی کی وہ نفسِ امارہ اور شیطان کے پھندوں میں پھنس گیا اور آخرکار گمراہ ہوا۔ دراصل نفس ( نفس کے بارے میں تفصیل باب 21 ’’نفس‘‘ میں ملاحظہ فرمائیں۔) کا مرنا ہی دل کی حیات ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
وہ کونسا علم ہے اور کہاں سے حاصل ہوتا ہے جس سے بغیر ریاضت کے یکبارگی نفس سے نجات حاصل ہو جاتی ہے؟ تصورِ اسمِ اللہ ذات وہ علمِ ہدایت ہے جس کی توفیق، تحقیق اور تصرف جسے عنایت ہو جاتا ہے وہ ایک ہی لمحہ میں توحید میں غرق ہو کر دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو جاتا ہے۔ تصورِ اسمِ اللہ ذات ایسا عمل ہے جو عامل کو کامل بنا دیتا ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق سے حاصل ہونے والے علم کے ذریعے تزکیہ نفس، تصفیہ قلب اور تجلیہ روح و سرّ ہوتا ہے۔ جو ان مراتب کو پا لے اس کا قالب (وجود) قلب کا لباس پہن لیتا ہے، قلب روح کا لباس پہن لیتا ہے اور روح سرّکا لباس پہن لیتی ہے۔ جب یہ چاروں ایک ہو جاتے ہیں تو اوصافِ ذمیمہ اس کے وجود سے نکل جاتے ہیں۔ ظاہری حواسِ خمسہ بند ہو جاتے اور باطنی حواس کھل جاتے ہیں۔ اس کے بعد وہ علم دل پر کھلتا ہے جس کے متعلق فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
وَ نَفَخْتُ فِیْہِ مِنْ رُّوْحِیْ (سورۃ الحجر۔29)
ترجمہ: اور میں نے اس کے اندر اپنی روح پھونکی۔
جیسے ہی روحِ اعظم حضرت آدمؑ کے وجودِ معظم میں داخل ہوئی تو اس روحِ اعظم نے وجود میں کہا یَا اَللّٰہُ۔ اللہ کا نام لیتے ہی بندے اور ربّ کے درمیان سے قیامت تک کے لیے حجاب اُٹھ گئے تاہم ابھی تک کوئی بھی اسمِ اللہ ذات کی حقیقت کی انتہا تک نہیں پہنچ پایا۔ (کلید التوحید کلاں)
جو شخص یہ چاہتا ہو کہ اس کا نفس اس کے تابع رہے اگرچہ وہ طرح طرح کے کھانے کھائے اور اطلس کے شاہانہ لباس پہنے، حوادثِ دنیا سے وہ امن پا لے، معصیتِ شیطان سے نجات پائے اور خناس، خرطوم، وسوسہ اور خطرات نابود اور خاکستر ہو جائیں تو اسے چاہیے کہ تصور اسمِ اللہ ذات کی مشق کرے اور اسے دل پر نقش کرے۔ بے شک اس کا دل غنی ہو جائے گا اور وہ مجلسِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم میں حضوری پائے گا۔ (کلید التوحید کلاں)
حاصل کلام یہ ہے کہ مقصد ِحیات یعنی معرفتِ حق تعالیٰ کے لیے، روح کی ترقی و بالیدگی کے لیے، قلبِ سلیم کے حصول کے لیے، اطمینانِ قلب کے لیے، اپنے اندر نورِ بصیرت کی تکمیل کے لیے، رضائے الٰہی اور معراج کے لیے اسمِ اللہ ذات کی طلب کرنا اور پھر اس کا ذکر اور تصور کرنا ہر مومن اور مسلمان کے لیے لازم ہے۔ اس کے بغیر نہ کوئی راستہ ہے اور نہ کوئی منزل۔ جب انسان ذکر اور تصور اسمِ اللہ ذات سے اعراض کرتا ہے تو اس کے وجود پر نفس اور شیطان قبضہ جما لیتے ہیں اور دل و دماغ کو اپنے قبضے اور تصرف میں لے کر سارے وجود پر اس طرح چھا جاتے ہیں جس طرح اکاس بیل (عشق پیچاں کی بیل) پورے درخت کو گھیر لیتی ہے۔ اسی طرح انسان کے رگ و ریشے اور نس نس میں شیطان دھنس جاتا ہے اور اسے حق نظر نہیں آتا کیونکہ اس کی باطنی روزی (روح کی غذا) تنگ ہو جاتی ہے۔
ذکر اور تصور کا کیا تعلق ہے؟
ذکر اور تصور کا باہمی رشتہ ایک تانے بانے کی مانند ہے اور ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارا دماغ ہر وقت کچھ نہ کچھ سوچتا رہتا ہے، کسی نہ کسی چیز کے خیال میں محو رہتا ہے، ایک لمحہ بھی خالی نہیں رہ سکتا۔ یہ ذکر کی قسم ہے۔ جن چیزوں کے متعلق ہمارا دماغ سوچتا ہے ان کی شکلیں ہمارے سامنے آجاتی ہیں، اگر بیوی بچوں کے متعلق سوچتا ہے تو وہ آنکھوں کے سامنے آجاتے ہیں اور گھر کے بارے میں سوچتا ہے تو گھرسامنے آجاتا ہے، اِسے’’ تصور ‘‘کہتے ہیں۔ ذکر و تصور کا یہ سلسلہ مسلسل اور لگاتار جاری رہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ دنیا، دنیا کے لوگوں اور دنیا کی اشیا سے ہماری محبت اور رشتہ مضبوط ہوتا چلا جاتا ہے۔ مختصر یہ کہ یہی تعلق اور لگاؤ ذکر اور تصور ہے۔ صوفیا کرامؒ ذکر اور تصور کے اس دنیاوی رُخ کو رُوحانی رُخ کی طرف موڑ کر واصل باللہ ہونے کا طریقہ ذِکر اور تصورِ اسمِ اللہ ذات کی صورت میں بتاتے ہیں۔ سورۃ مزمل کی آیت وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلاً۔ (ترجمہ: اور سب سے الگ ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جائو) میں اسی طرف اشارہ ہے۔ جس طرح لوہے کو لوہا کاٹتا ہے اور پانی کی بہتات سے پژمُردہ فصل پانی ہی سے ہری بھری ہو جاتی ہے اسی طرح ذکر کو ذکر اور تصور کو تصور کاٹتا ہے۔ ضرورت صرف ذِکر اور تصور کے رُخ کو بدلنے کی ہے۔ اگر ہم دنیا اور اس کی فانی اشیا اور اشکال کی بجائے اسمِ اللہ ذات کا ذِکر اور تصور کریں تو ہمارا اس دنیا اور اس کی اشیا سے لگاؤ اور محبت ٹوٹ کر اللہ سے عشق و محبت پیدا ہو جاتا ہے اور ہمارے قلب میں پوشیدہ امانتِ حق تعالیٰ ظاہر ہو جاتی ہے۔
تصور اسم اللہ ذات کے بغیر ذکر اسم اللہ ذات بھی کامل نہیں ہوتا اور نہ ہی اتنا فائدہ مند ثابت ہوتا ہے جتنا کہ تصور کے ساتھ۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
ذاکروں کا ذکر اس وقت تک کامل نہیں ہوتا جب تک وہ ذکر کی کلید حاصل نہ کر لیں۔ ذکر کی کلید اسمِ اللہ ذات کا تصور ہے۔ اسمِ اللہ ذات کے تصور سے اس حد تک ذکر جاری ہو جاتا ہے کہ اسے شمار نہیں کیا جا سکتا اور جسم پر جس قدر بال ہیں، تمام علیحدہ علیحدہ اس طرح ذکرِاللہ کا نعرہ لگاتے ہیں کہ سر سے قدم تک وجود کے تمام اعضا، گوشت، پوست، رگیں، مغز اور ہڈیاں جوش سے ذکرِ اللہ میں محو ہو جاتے ہیں۔ یہ صاحبِ تصور اسمِ اللہ ذات کے مراتب ہیں کہ ان کے مغز اور پوست میں اللہ ہی ہوتا ہے۔ (شمس العارفین)
اسمِ اللہ ذات ہی اسم ِ اعظم ہے
عاملین، عابدین اور زاہدین نے ہر دور میں اسم ِاعظم تلاش کیا لیکن سوائے چند عارفین کے اسمِ اعظم نہ پا سکے یعنی اس کی کنہ تک نہ پہنچ سکے۔ بے شک انہوں نے دیگر اذکار اور عبادات سے اعلیٰ مراتب اور درجات تک رسائی حاصل کر لی لیکن دریائے وحدت میں غوطہ زن ہونے اور وصالِ الٰہی سے محروم رہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
سن! اہلِ علم کو قرآنِ پاک میں سے اسمِ اعظم اس لیے نہیں ملتا کہ اسمِ اعظم وجودِ اعظم میں ہی قرار پکڑتا ہے۔ اگر کسی کو اسمِ اعظم مل بھی جائے اور وہ اس کا ذکر بھی کرتا رہے تو بھی اسمِ اعظم اس پر تاثیر نہیں کرے گا کیونکہ جو وجود ہی بے اعظم ہے اس پر اسمِ اعظم کیا تاثیر کرے؟ اسمِ اعظم کے بغیر ذکر جاری نہیں ہوتا اور اسمِ اعظم صرف فقیرِ کامل مکمل اور علمائے عامل کے وجود میں قرار پکڑتا ہے۔ علمائے عامل بھی صرف فقیرِ کامل ہی ہیں۔ وہ احمق ہے جو اللہ کی بجائے اسمِ اعظم پر اعتقاد رکھتا ہے۔ اسمِ اعظم اسے حاصل ہوتا ہے جو صاحبِ مسمیّ ہو اور وہی صاحبِ اسمِ اعظم (مرشد کامل) ہوتا ہے۔ (عین الفقر)
مام فخر الدین رازیؒ و بعض صوفیا کرامؒ نے ’’ھوُ‘‘ کو اسمِ اعظم بتایا ہے۔
منصور حلاج نے طواسین میں لکھا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ’’ھُو‘‘ کے محرمِ راز ہیں۔
شیخِ اکبر محی الدین ابنِ عربی رحمتہ اللہ علیہ فتوحاتِ مکیہ میں فرماتے ہیں:
’’ھُو‘‘ عارفین کا سب سے آخری اور اعلیٰ ذکر ہے۔
سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ فرماتے ہیں ’’اسمِ اللہ ذات اسمِ اعظم ہے لیکن شرط یہ ہے کہ جب تو اسمِ اللہ کہے اس وقت تیرے دل میں اللہ تعالیٰ کے سوا اور کچھ نہ ہو۔‘‘
علامہ ابنِ عابدینؒ فرماتے ہیں کہ امام ابو حنیفہؒ نے اسمِ اللہ کو اسمِ اعظم فرمایا ہے۔
بعض علما کرام نے بسم اللّٰہِ الرحمٰن الرحیم کو اسم ِ اعظم کہا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ بھی فرماتے ہیں:
ب بِسْمِ ﷲ اِسم ﷲ دا ، ایہہ وِی گہناں بھارا ھوُ
مفہوم: بِسْمِ ﷲ میں اسمِ اللہ پوشیدہ ہے اور یہ وہی بھاری امانت ہے جس کو اٹھانے سے ساری مخلوقات نے انکار کر دیا تھا سوائے انسان کے۔
حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ نے اپنے کلام میں معرفت و طریقت کی خوب وضاحت فرمائی ہے۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ شدتِ شوق سے بارگاہِ مرشد میں اسمِ اللہ ذات کی طلب میں عرض کرتے ہیں:
نویس ’اللہ‘ بر لوحِ دلِ من
کہ ہم خود را ہم او را فاش بینم
(ارمغانِ حجاز)
ترجمہ: میرے دل کی لوح پر اسمِ اللہ ذات لکھ اور مجھے بھی اور میرے اندر چھپے ہوئے حق تعالیٰ کے بھید کو بھی مجھ پر آشکار کر دے۔
نگہ الجھی ہوئی ہے رنگ و بوُ میں
خرد کھوئی گئی ہے چار سوُ میں
نہ چھوڑ اے دل فغانِ صبح گاہی
اماں ملے شاید اللہ ھُو میں
(بالِ جبریل)
سلطان الفقر ششم حضرت سخی سلطان محمد اصغر علی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
انسان کو اپنی ذات اور اللہ تعالیٰ کی پہچان صرف اسمِ اللہ ذات ہی سے حاصل ہوتی ہے۔ کوئی دوسرا ذکر،فکر یا عبادت انسان کے باطن کے بند دروازے کے قفل کو نہیں کھول سکتی۔
اسمِ ذات ’’ھُو‘‘ سلطان الاذکار ہے اور جو ھُومیں فنا ہو کر ھُو ہو گیا وہی سلطان ہے۔
اسمِ اللہ ذات دل کی کنجی ہے۔
ذکر اسمِ اللہ ذات سے دل کے آئینے سے زنگ اتر جاتا ہے اور وہ روشن اور صاف ہو جاتا ہے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ
آپ رحمتہ اللہ علیہ نے ایک سو چالیس کتب تصنیف فرمائی ہیں اور ہر تصنیف اسمِ اللہ ذات کی شرح و تفسیر ہے۔ اسم اللہ ذات کے اسرار و رموز کو جتناآپ رحمتہ اللہ علیہ نے کھول کر اپنی تصنیفات میں بیان فرمایا ہے اس سے پہلے کوئی بھی نہ کر سکا۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
خیال خواندن چندیں کتب چراست ترا
الف بس است اگر فہم ایں اداست ترا
ترجمہ: تجھے اس قدر کتب پڑھنے کا خیال کیوں رہتا ہے؟ اگر تو سمجھے تو تیرے لیے محض علمِ الف (اسمِ اللہ ذات) ہی کافی ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
اسمِ اللہ راہبر است در ہر مقام
از اسمِ اللہ یافتند فقرش تمام
ترجمہ: اسمِ اللہ ذات طالبانِ مولیٰ کی ہر مقام پر راہنمائی کرتا ہے اور اسمِ اللہ ذات سے ہی وہ کامل فقر کے مراتب پر پہنچتے ہیں۔ (محک الفقر کلاں)
اسمِ اللہ ذوق بخشد باوصال
بے زبانے سخن گوید قیل و قال
ترجمہ: اسمِ اللہ کے تصور سے صاحب ِ تصور کو ذوقِ الٰہی نصیب ہوتاہے جس سے وہ ہر وقت وصالِ حق میں مسرور ہو کر ذاتِ حق سے بے زبان گفتگو کرتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
آں روز یاد کن کہ یارے تُو کس نہ باشد
جز عمل و ایمان دیگرے ہمراہِ تُو کس نہ باشد
باھوؒ! بہ ازیں نہ باشد یک بار گفتن اللہ
اللہ بس ترا شد خطے کش بر سویٰ اللہ
ترجمہ: اس دِن کو یاد کر جب تیرا کوئی دوست نہیں ہوگا اور عمل و ایمان کے سوا تیرے ساتھ کوئی نہیں جائے گا۔ اے باھوؒ! ایک بار ذکرِ اللہ کرنے سے بہتر کوئی عمل نہیں۔ اسمِ اللہ تیرے لیے کافی ہے، اسمِ اللہ کے سوا ہر چیز پر خط ِتنسیخ کھینچ دے (یعنی اسمِ اللہ کے سوا ہر چیز کو ترک کر دے)۔ (محک الفقر کلاں)
اسمِ اللہ بس گرانست بس عظیم
ایں حقیقت یافتہ نبیؐ کریم
ترجمہ:اسمِ اللہ ذات نہایت گراں اور بیش قیمت دولت ہے اور اس کی حقیقت کو صرف حضور علیہ الصلوٰۃوالسلام ہی جانتے ہیں۔(کلید التوحیدکلاں)
آخر اصل اور کامل راہ کونسی ہے جو ایک ہی لمحے میں لازوال مراتبِ حضوری تک پہنچا کر وصالِ الٰہی سے بہرہ ور کر دیتی ہے اور جس میں کوئی رجعت لاحق نہیں ہوتی۔ ذکر و فکر، مراقبہ و مکاشفہ، صوم و صلوٰۃ، ورد و وظائف، حج و زکوٰۃ، تلاوت و علم سب میں رجعت کا خطرہ ہے۔ ہر وہ عمل جو ماسویٰ اللہ کسی اور نیت سے کیا جائے طالب کے لیے باعث ِ رجعت ہے۔ لیکن تصور و توفیقِ حاضراتِ اسمِ اللہ ذات سے حاصل ہونے والے مراتب رجعت سے ہمیشہ کے لیے نجات دلا دیتے ہیں اور طالب تصورِ اسم اللہ، تفکر فنا فی اللہ، تصرف بقا باللہ اور مرشد کامل کی توجہ سے حضوری کے لازوال مراتب کو پا لیتا ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
فقیر کے مغزوپوست میں اسمِ اللہ ذات کا ذکر جاری ہو جاتا ہے اور یہ ذکر اس کی ہڈیوں میں، اس کی آنکھوں میں اور اس کے چمڑے میں بھی جاری ہو جاتا ہے۔ پس قلبی ذاکر کا تمام بدن اسمِ اللہ ذات بن جاتا ہے اور اس میں اسمِ اللہ ذات جاری ہو جاتا ہے …… ایسے فقیر کا وجود قدرتِ الٰہی کا نمونہ بن جاتا ہے۔ (محبت الاسرار)
سلطان الاذکار ھُو
ھُو سلطان الاذکار ہے جس کے بارے میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
باھوُ در ھوُ گم شدہ فی اللہ فنا
نام باھوؒ متصل شد با خدا
ترجمہ: باھوؒ ھُو میں گم ہو کر فنا فی اللہ ہو گیا اور باھُوؒ کانام اللہ کے ساتھ متصل ہو گیا۔
باھوؒ با ھوُ فنا، با ھوُ بقا شد
کہ اوّل آخر رازِ ھوُ بقا شد
ترجمہ: باھوؒ، ھوُ میں فنا ہو کر ھوُ کے ساتھ بقا پاگیا کیونکہ اوّل آخر ھوُ کا راز اُسے مل گیا۔
باھوؒ در ھوُ گم شدہ باھوؒ نہ ماند
باھوؒ از ھو یافتہ ’یاھو‘ بخواند
ترجمہ: ھُو میں گم ہونے کے بعد باھوؒ باقی نہ رہا۔ باھوؒ نے ’یاھُو‘ کا ذکر ھُو سے پایا۔ (نور الہدیٰ کلاں)
باھُو در ھُو گم شدہ، گمنام را کہ یافتہ؟
ہم صحبتم با مصطفیؐ در نور فی اللہ ساختہ
ترجمہ: باھوؒ ھوُ میں گم ہو گیا ہے، ایسے گمنام کو کیسے ڈھونڈا جا سکتا ہے؟ میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی صحبت میں رہتا ہوں اس لیے نورِ الٰہی میں غرق ہو کر نور ہی بن گیا ہوں۔ (نور الہدیٰ کلاں)
از قبرِ باھُوؒ ھُو برآید حق بنام
ذاکران را انتہا ’’ھُو‘‘ شد تمام
ترجمہ: باھوؒ کی قبر سے ’ھُو‘ کی صدا بلند ہوتی رہتی ہے جو نامِ حق ہے۔ ھُو ذاکروں کا انتہائی ذکر ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
ذکرِ ھُو کرتے کرتے جب ذاکر کے وجود پر اسمِ ھُو غالب آکر اُسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے تو اس کے وجود میں ھُوکے سوا کچھ نہیں رہتا۔ (محک الفقر کلاں)
لاھوُت وہ جہان ہے جس کی حد پر معراج کی رات جبرائیل علیہ السلام نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے کہا تھا کہ اگر میں جبروت سے نکل کر لاھوُت کی حد میں داخل ہونے کی کوشش کروں گا تو جل جاؤں گا، یہاں سے آگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم تنہا ہی سفر فرمائیں۔ لاھوُت لامکان میں دیدارِ الٰہی ہے اور یہاں داخلہ ذکرِ ھُو سے ہی ممکن ہے اور یہ صرف انسان کا شرف ہے۔
پنجابی ابیات میں حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ اسمِ اللہ ذات اور سلطان الاذکار ھُو کے بارے میں فرماتے ہیں:
الف اَﷲ چنبے دی بوٹی، میرے من وِچ مرشد لائی ھوُ
نفی اثبات دا پانی ملیس، ہر رگے ہر جائی ھوُ
اندر بوٹی مُشک مچایا، جاں پھلاں تے آئی ھوُ
جیوے مرشد کامل باھوؒ، جیں ایہہ بوٹی لائی ھوُ
اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے اسمِ اللہ ذات کو چنبیلی کے پودے، جسے موتیا بھی کہتے ہیں، سے تشبیہہ دی ہے۔ سلطان العارفین سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پہلے عارف ہیں جنہوں نے اسمِ اللہ ذات کے لیے’’ چنبے دی بوٹی ‘‘کا استعارہ استعمال فرمایا ہے۔ چنبیلی کے پودے کی پہلے پنیری (بوٹی) لگائی جاتی ہے اور جب وہ آہستہ آہستہ نشو ونما پاکر ایک مکمل پودا بن جاتا ہے تو چنبیلی کے پھولوں سے لد جاتا ہے اور اس کی خوشبو پورے ماحول کومہکا دیتی ہے۔ اسی طرح جب مرشد طالب کو ذکر وتصور اسمِ اللہ ذات عطا فرماتا ہے تو گویا اس کے دِل میں ایک پنیری لگا دیتا ہے اور اسمِ اللہ ذات کا نور مرشد کی نگہبانی میں آہستہ آہستہ طالبِ صادق کے پورے وجود میں پھیل کر اس کو منور کر دیتا ہے۔
آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میرا مرشد کامل ہمیشہ حیات رہے جس نے مجھ پر فضل و کرم اور مہربانی فر مائی اور اسمِ اللہ ذات عطا فرما کر اپنی نگاہِ کامل سے میرے دِل میں اسمِ اللہ ذات کی حقیقت کو کھول دیا ہے۔ اس نے نفی (لَآ اِلٰہَ) سے تمام غیر اللہ اور بتوں کو دِل سے نکال دیا ہے اور اثبات (اِلَّا اللّٰہ) کا راز کھول کر مجھے اسم سے مسمیّ تک پہنچا دیا ہے۔ اب یہ راز اور اس کے اسرار میری رگ رگ، ریشہ ریشہ اور مغز و پوست تک میں سرایت کر گئے ہیں۔ اب تو اسمِ اللہ ذات پورے وجود کے اندر اتنا سرایت کر چکا ہے کہ جی چاہتا ہے کہ جو اسرار اور راز مجھ پر کھل چکے ہیں اُن کو ساری دنیا پر ظاہرکر دوں لیکن خواص کے یہ اسرار عام لوگوں پر ظاہر نہیں کیے جا سکتے اسی لئے اِن رازوں کو سنبھالتے سنبھالتے جان لبوں تک آچکی ہے۔ ظاہر باطن میں جدھر بھی نظر دوڑاتا ہوں اب مجھے اسمِ اللہ ذات ہی نظر آتا ہے اور حالت اس آیت کی مثل ہو چکی ہے کہ ’’تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں اللہ کا چہرہ ہی نظر آئے گا۔‘‘ (سورۃ البقرہ۔115)
اندر ھوُ تے باہر ھوُ، ایہ دَم ھوُ دے نال جِلیندا ھوُ
ھوُ دا داغ محبت والا، ہر دَم پیا سڑیندا ھوُ
جتھے ھُو کرے رُشنائی، اُوتھوں چھوڑ اندھیرا وِیندا ھوُ
میں قربان تنہاں توں باھوؒ، جیہڑا ھوُ نوں صحی کریندا ھوُ
اس بیت میں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ سلطان الاذکار ھُوکے اسرار بیان فرما رہے ہیں کہ جو طالب تصور اسمِ اللہ ذات، ذکرِ ھُو اور مرشد کامل اکمل کی مہربانی سے ھُو کا راز حاصل کر لیتا ہے اُسے ظاہر و باطن میں ہر طرف ھُو ہی نظر آتا ہے اور حالت یہ ہوجاتی ہے ’’تم جس طرف بھی دیکھو گے تمہیں اﷲ تعالیٰ کا چہرہ ہی نظر آئے گا‘‘ (سورۃ البقرہ۔115)۔ ھُو کی محبت جب دِل کے اندر گھر کر لیتی ہے تو دوسری ہر محبت جل کر راکھ ہو جاتی ہے اور صرف ذاتِ باری تعالیٰ کی محبت اور عشق ہی باقی رہ جاتا ہے۔ ﷲ بس ماسویٰ اﷲ ہوس۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں اُن لوگوں کے قربان جاؤں جو ھُو کے راز کو حاصل کرنے کے لیے ہر لمحہ بے قرار اور بے سکون رہتے ہیں اور پھر اپنی منزل ھُو کو پا ہی لیتے ہیں۔
ب ت پڑھ کے فاضل ہوئے، ہک حرف نہ پڑھیا کسے ھوُ
جیں پڑھیا تیں شوہ نہ لدھا، جاں پڑھیا کجھ تسے ھوُ
چوداں طبق کرن رُشنائی، انھیاں کجھ نہ دِسے ھوُ
باجھ وصال اللہ دے باھُوؒ، سبھ کہانیاں قصے ھوُ
زاہد وظائف اور دیگر ذکر اذکار کر کے اور علما تمام علوم کا مطالعہ کر کے عالم فاضل تو بن گئے مگر ایک حرف الف یعنی ’’اسمِ اللہ ذات‘‘ کی حقیقت اور اسرار سے بے خبر ہیں۔ اگر اسمِ اللہ کا ورد اور ذکر کیا بھی تو وہ بھی مرشد کامل اور طلبِ صادق کے بغیر، پھر بھلا دیدارِ الٰہی کیسے حاصل ہوتا۔ زمین اور آسمان اسمِ اللہ ذات سے روشن ہیں مگر ان دِل کے اندھوں کو کچھ نظر نہیں آتا۔ وصالِ الٰہی (فنا فی ھوُ) کے بغیر باقی سب مقامات اور منازل بے کار اور بے فائدہ ہیں۔
جس دِل اِسم اللہ دا چمکے، عشق وِی کردا ہلے ھوُ
بوُ کستوری دی چھپدی ناہیں، بھانویں دے رکھییٔ سے پلے ھوُ
انگلیں پچھے دِینہہ ناہیں چھپدا، دریا نہ رہندے ٹھلے ھوُ
اسیں اوسے وِچ اوہ اساں وِچ، باھوؒ یاراں یار سولے ھوُ
جس طالب کے دل کے اندر اسمِ اللہ ذات آفتاب کی مانند روشن ہو جاتا ہے وہ دیدارِ الٰہی سے مشرف ہو کر عشقِ اﷲ میں مبتلا ہو جاتا ہے۔ اس کا عشق دِل کے اندر پوشیدہ نہیں رہتا بلکہ اسی طرح ظاہر ہو جاتا ہے جس طرح کستوری کی خوشبو، سورج کی روشنی اور دریائوں کے پانی کو کوئی نہیں روک سکتا۔ آخر کار طالبِ مولیٰ اپنی ہستی کو ختم کر کے اﷲ پاک کی ذات میں فنا ہو جاتا ہے اور اللہ اس کی ذات میں ظاہر ہو جاتا ہے۔
مشق مرقومِ وجودیہ
مشق مرقومِ وجودیہ سے مراد نقش اسمِ اللہ ذات کو سامنے رکھ کر تفکر سے وجود کے مختلف اعضا پر انگشتِ شہادت سے اسمِ اللہ ذات لکھنا ہے۔ حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ مشق مرقومِ وجودیہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
کل و جز کے ان تمام مراتب کو حاصل کرنا اور واصل باللہ ہونا مشق مرقومِ وجودیہ کے ذریعہ ممکن ہے۔ با تفکر مشقِ وجودیہ کرنے سے اسمِ اللہ ذات جسم میں روشن ہو جاتا ہے۔ بعد ازاں طالب کے وجود میں اسمِ اللہ ذات کے ہر حرف سے تجلیات کا نزول ہوتا ہے اور طالب ایک ہی لمحہ میں حضرت معروف کرخی رحمتہ اللہ علیہ کے مرتبے پر پہنچ کر غنی و لایحتاج ہو جاتا ہے۔ فقیر عامل کیمیاگر کو کیمیا اکسیر کا مرتبۂ غنایت حاصل ہوتا ہے اور صاحبِ بحر و براہلِ نظر ولی اللہ کو کیمیا اکسیر کا مرتبۂ ہدایت حاصل ہوتا ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
وہ کون سی راہ ہے جس کے ذریعے طالب ایک ہی بار آفاتِ شیطانی، بلیاتِ نفسانی اور حوادثِ دنیا پریشانی سے سلامتی کے ساتھ گزر کرقربِ ربانی پا لیتا ہے اور پھر دائمی فنا فی اللہ ہو کر غرقِ نور و مشرفِ حضور رہتا ہے۔ پس اس کا وجود مغفور ہو جاتا ہے اور وہ مشاہدۂ رویتِ جمال کی لذت حاصل کرکے قیل و قال سے بالاتر ہو جاتا ہے اور تمام احوال سے واقف ہو کر لازوال وصال پا لیتا ہے۔ اس راہ کا گواہ کونسا علم ہے؟ مشقِ مرقومِ وجودیہ کے ذریعے اسمِ اللہ ذات ہفت اندام کو اس طرح لپیٹ میں لے لیتا ہے جیسے بیل درخت کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ جسم کے ہر حصے پراسم اللہ یوں تحریر ہو جاتا ہے کہ ذاکر کے وجود کا ہر بال جوش میں آکر اللہ،اللہ،اللہ کا ورد کرنے لگتا ہے۔ (نورالہدیٰ کلاں)
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیف ِلطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)