سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھُو رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی تعلیمات کو نہ تو تصوف اور نہ ہی طریقت بلکہ فقر کا نام دیا ہے۔
عرفِ عام میں فقر افلاس، غربت، تنگدستی اور عسر کی حالت کو کہتے ہیں۔ اس کے لغوی معنی احتیاج کے ہیں لیکن عارفین کے نزدیک فقر سے مراد وہ منزلِ حیات ہے جس کے متعلق خاتم النبیین حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ فَاَفْتَخِرُّ عَلٰی سَائِرِ الْاَنْبِیَآئِ وَالْمُرْسَلِیْنَ
ترجمہ : فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے اور فقر ہی کی بدولت مجھے تمام انبیاو مرسلین پر فضیلت حاصل ہے۔
اَلْفَقْرُ کَنْزٌ مِنْ کُنُوْزِ اللّٰہِ تَعَالٰی
ترجمہ: فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے۔
فقر وہ مرتبہ ہے جہاں پر انسان ہر قسم کی حاجت سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اُس کے مد ِ نظر رہتی ہے اس لیے ہر حال میں تقدیر ِ الٰہی سے موافقت اختیار کیے رکھتا ہے۔ اللہ تعا لیٰ کے قرب کے سوا نہ وہ اللہ تعالیٰ سے کچھ مانگتا ہے اور نہ اللہ تعالیٰ کے غیر سے کچھ مطلب رکھتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی منشا و رضا میں مداخلت کو گناہ سمجھتا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ کے قرب و حضور کے علاوہ اس کی کوئی طلب یا خواہش نہیں ہوتی۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
فقر ’’عین ذات ‘‘ ہے۔ (عین الفقر)
اگر کسی کو اللہ تعالیٰ کے قرب اور دیدار کی خواہش ہے تو وہ راہِ فقر اختیار کرے۔ (عین الفقر)
فقر اللہ کا سِرّ (راز) ہے اور اللہ فقر کا سِرّ ہے۔ (عین الفقر)
جان لے کہ تمام پیغمبروں نے مرتبہ فقر پر پہنچنے کی التجا کی لیکن نہ پا سکے۔ وہ تمام فقر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو عطا ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اسے خود اپنی اُمت کے سپرد فرمایا۔ یہ فقر ِ محمدی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فخر ہے۔ فقر فیض ہے۔ (امیر الکونین)
تمام انبیا کرام نے مرتبہ ٔ فقر کی خاطر حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا امتی ہونے کی التجا کی لیکن انہیں یہ مرتبہ حاصل نہیں ہوا۔ جس نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو پایا اس نے فقر ِ محمدی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو اپنا رفیق بنایا۔ فقر سے بڑھ کر قابل ِ فخر اور بلند تر مرتبہ کو ئی ہے نہ ہو سکتا ہے۔ فقر دائمی حیات ہے۔ (نور الہدیٰ کلا ں)
علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
کسے خبر کہ ہزاروں مقام رکھتا ہے
وہ فقر جس میں ہے بے پردہ ’روحِ قرآنی‘
خودی کو جب نظر آتی ہے قاہری اپنی
یہی مقام ہے کہتے ہیں جس کو ’سلطانی‘
یہی مقام ہے مومن کی قوتوں کا عیار
اسی مقام سے آدم ہے ’ظلِ سبحانی‘
(ضربِ کلیم)
فقر ازلی نصیبہ
فقر دراصل ان لوگوں کا ازلی نصیبہ ہے جو روزِ اَلست دنیا و عقبیٰ کی تمام نعمتوں کو ٹھکرا کر اپنے مولیٰ کی طرف متوجہ رہے اور کائنات کی تمام لذتیں بھی ان کے پائے استقامت میں لغزش پیدا نہ کر سکیں۔ اس واقعہ کو سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ نے یوں بیان فرمایا ہے:
اے عزیز! جان لے جب اللہ تعالیٰ نے کن فیکون کا اظہار کرنا چاہا تو فرمایا:
کُنْتُ کَنْزًا مَخْفِیًا فَاَحْبَبْتُ اَنْ اُعْرَفَ فَخَلَقْتُ الْخَلْقَ لِاُعْرَفَ
ترجمہ: میں ایک چھپا ہواخزانہ تھا، میں نے چاہا کہ میں پہچاناجاؤں تو میں نے اپنی پہچان کی خاطر مخلوق کو پیدا فرمایا۔
حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمان ہے:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَالْفَقْرُ مِنِّیْ۔ اَلدُّنْیَا حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْعُقْبٰی وَالْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الدُّنْیَا وَالدُّنْیَا وَ الْعُقْبٰی حَرَامٌ عَلٰی طَالِبِ الْمَوْلٰی۔ مَنْ لَہُ الْمَوْلٰی فَلَہُ الْکُلُّ
ترجمہ:فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے ۔ دنیا طالبِ عقبیٰ پر حرام ہے اور عقبیٰ طالبِ دنیا پر حرام ہے اور دنیا و عقبیٰ دونوں طالبِ مولیٰ پر حرام ہیں۔ جسے مولیٰ مل گیا اُسے سب کچھ مل گیا۔ (شمس العارفین،کلیدِ جنت، کلید التوحیدکلاں، محک الفقر کلاں)
قرآنِ پاک میں سورۃ الواقعہ میں اللہ تعالیٰ نے انہی تین گروہوں اور آخرت میں ان کے انجام و مقام کا ذکر فرمایا ہے:
وَّ کُنْتُمْ اَزْوَاجًا ثَلٰثَۃً۔ فَاَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَیْمَنَۃِ ۔ وَ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ لا مَآ اَصْحٰبُ الْمَشْئَمَۃِ ط۔ وَ السّٰبِقُوْنَ السّٰبِقُوْنَ۔ اُولٰٓئِکَ الْمُقَرَّبُوْنَ۔ فِیْ جَنّٰتِ النَّعِیْمِ۔ (سورۃ الواقعہ7-12)
ترجمہ: اور تم لوگ تین قسموں میں بٹ جاؤ گے۔ سو (ایک) دائیں جانب والے، دائیں جانب والوں کا کیا کہنا۔ اور (دوسرے) بائیں جانب والے، کیا (ہی برے حال میں ہوں گے) بائیں جانب والے۔ اور (تیسرے) سبقت لے جانے والے، (یہ) پیش قدمی کرنے والے ہیں۔ یہی لوگ (اللہ کے) مقرب ہوں گے۔ نعمت کے باغات میں (رہیں گے)۔
ان آیات میں دائیں ہاتھ والوں سے اہل عقبیٰ مراد ہیں، بائیں ہاتھ والوں سے اہلِ دنیا مراد ہیں اور سابقون سے مراد طالبِ مولیٰ ہیں۔ سورۃ الواقعہ کا بیشتر حصہ انہی تین گروہوں کے متعلق ہے۔
فقر عطائے الٰہی
’’ فقر‘‘ ایک توازلی نصیبہ ہے لیکن کچھ لوگوں کو اللہ پاک ان کے جذبہ ٔ محبت و عشق کی بدولت اپنے فضل و کرم سے عطاکر تا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ ط وَاللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ (سورۃ الحدید۔21 )
ترجمہ: یہ فضل ہے اللہ تعالیٰ کا، عطاکرتا ہے جسے چاہتا ہے اور اللہ تعالیٰ عظیم فضل کا مالک ہے۔
قرآنِ مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
فَفِرُّوْٓا اِلَی اللّٰہِ (سورۃ الذٰریٰت۔ 50 )
ترجمہ: پس دوڑو اللہ کی طرف۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
جو بھی اللہ کی جانب قدم بڑھاتا ہے اللہ تعالیٰ کا فضل و عنایت اسے قوتِ جذب سے اپنی جانب کھینچ لیتا ہے اور دونوں جہان عطا کر کے اُسے آزماتا ہے۔ اگر طالب دونوں جہان کی طرف توجہ نہیں کرتا تو وہ مرتبۂ فقر پرپہنچ کر فقیر بن جاتا ہے۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (سورۃ النجم۔17)
ترجمہ: بہکی نہیں نگاہ اور نہ حد سے بڑھی۔ (نور الہدیٰ کلاں)
صوفیا کرام ہمیشہ فقر کا راستہ اختیار کرنے کی تلقین کرتے رہے ہیں۔ الرسالۃ الغوثیہ میں درج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدّنا غوث الاعظم رضی اللہ عنہٗ سے فرمایا:
اے غوث الاعظمؓ! اپنے اصحاب اور اپنے احباب سے کہہ دو کہ تم میں سے جو کوئی میری صحبت چاہتا ہے وہ فقر اختیار کرے۔
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فقر کے بارے میں فرماتے ہیں:
فقراللہ تعالیٰ کی عطا ہے۔ اللہ تعالیٰ جسے چاہے یہ بخش دے۔ (عین الفقر)
حضرت ابراہیم بن ادھم رحمتہ اللہ علیہ جو بادشاہت کو ٹھوکر مار کر فقر کے راہی بنے تھے، فرماتے ہیں:
فقر اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں سے ایک خزانہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں میں رکھا ہے اور اللہ تعالیٰ یہ اُن کو عطا کرتا ہے جن سے وہ محبت کرتا ہے۔
حضرت سیدّ شاہ کمال قادری کیتھلی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی اتباع میں فقر سے بڑھ کر کوئی اتباع نہیں۔
فقر کی منزل پر دنیا وی مال و دولت، منصب و تکریم، شان و شوکت، آرام و آسائش، خواہشات اور عزت و جان اللہ کے عشق میں ختم ہو جاتے ہیں اور بندہ اللہ کی محبت اور صحبت میں دونوں جہانوں سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔
فقرِ اضطراری و فقرِ اختیاری
کچھ لوگ مجبوری کی حالت میں یا لوگوں کو دھوکہ دینے کے لیے راہِ فقر اختیار کرتے ہیں۔ زندگی میں کچھ حاصل نہیں کر سکتے اور نہ ہی زندگی کے کسی شعبہ میں کامیاب ہو سکتے ہیں اس لیے شہرت، مال و دولت اور ضروریاتِ زندگی کے حصول کے لیے کسی صاحب ِ فقر کی بار گاہ میں پہنچ کر فقر کی چادر اوڑھ لیتے ہیں۔ مقصد اُن کا دیدارِ الٰہی نہیں بلکہ دنیا ہوتا ہے۔ کچھ لوگ کسی دنیوی پریشانی، تکلیف اور بیماری سے گھبرا کر یا جذباتی ہو کر فقر کی راہ اختیار کر لیتے ہیں۔ کسی ولی ٔکامل (صاحب ِ فقر) کی وفات کے بعد اس کی خانقاہ و مزار کی گدی نشینی اختیار کرنے والے لوگ، جو عموماً صاحب ِ مزار کی اولاد میں سے ہوتے ہیں، بھی فقر کا دعویٰ کرتے ہیں حالانکہ انہیں فقر کی ہوا بھی نہیں لگی ہوتی۔ ان کا مقصد ِ زندگی صرف مزار کی آمدنی تک یا صاحب ِ مزار کے مریدوں کے نذرانے تک محدود ہوتا ہے یا پھر مشائخ بن کر مقامِ عزّو جا ہ حاصل کرنا مقصود ہوتا ہے۔ ایسے فقر کو ’’فقر ِ اضطراری‘‘ کہتے ہیں۔ اقبالؒ نے اسی فقر کے بارے میں کہا ہے:
میں ایسے فقر سے اے اہل ِ حلقہ باز آیا
تمہارا فقر ہے بے دولتی و رنجوری
(بالِ جبریل)
طالبانِ حق خواہ وہ بادشاہ، امیر، حاکم، دولت مند، دنیا میں معروف، غیر معروف یا غریب ہوں، صرف دیدارِ الٰہی کے لیے اپنا سب کچھ داؤ پر لگا کرفقر اختیار کرتے ہیں۔ اُن کی طلب فقط دیدارِ الٰہی ہوتی ہے جس کے لیے وہ سارا عالم چھوڑ کر کوئے یا ر کو اپنا بنا لیتے ہیں اور کہتے ہیں ’’ہمارے لیے اللہ ہی کافی ہے۔‘‘ وہ اللہ سے اللہ کو ہی مانگتے ہیں اور اس مقصد کے لیے اپنا سب کچھ قربان کر دیتے ہیں۔ وہ اللہ تعالیٰ کے حضور میں فقیر ہوتے ہیں۔ انہی کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
وَ اللّٰہُ الْغَنِیُّ وَ اَنْتُمُ الْفُقَرَآئُ (سورۃ محمد۔38)
ترجمہ: اللہ غنی ہے اور تم فقیر ہو۔
یہ فقرِاختیاری ہے۔ فقرِ اختیاری کے لیے دِل کو دنیا اور خواہشاتِ دنیا سے بے رغبت کرنا ضروری ہے۔ فقرِ اختیاری اور فقرِ اضطراری میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ فقرِ اضطراری روح کی موت کا باعث بنتا ہے جبکہ فقرِ اختیاری سے روح کو زندگی حاصل ہوتی ہے۔ فقرِ اضطراری انسان کو ذلیل و خوار کر دیتا ہے مگر فقرِ اختیاری انسان کو وہ شوکت و قوت عطا کرتا ہے کہ پوری کائنات اس کے تصرف میں دے دی جاتی ہے۔ حضور علیہ الصلوٰ ۃ والسلام نے اسی فقر کو اپنا فخر قرار دیا ہے۔
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
جان لو کہ فقر کے دو طریق ہیں، ایک فقرِ اختیاری ہے جس کے متعلق حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
اَلْفَقْرُ فَخْرِیْ وَ الْفَقْرُ مِنِّیْ
ترجمہ: فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے۔
فقر کا دوسرا طریق فقرِ اضطراری ہے جس میں دربدر بھیک مانگنے کی خواری ہے اور یہ مرتبہ غنایت سے محروم ہے۔ اس فقر کو اختیار کرنے والا دن رات فقر کی شکایت ہی کرتا رہتا ہے۔ فقرِ اضطراری فقرِ مکب ہے۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا:
نَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنْ فَقْرِ الْمُکِبِّ
ترجمہ: میں فقرِ مکبّ ( مکبّ کے معنی ’اوندھا‘ ہیں۔) سے اللہ کی پناہ مانگتا ہوں۔
فقرِ اختیاری کی بنیاد تصور اسمِ اللہ ذات ہے جس کے تصور کی مشق سے اللہ کا قرب اور حضوری حاصل ہوتی ہے۔ (امیر الکونین)
فقر حضرت سخی سلطان باھوُرحمتہ اللہ علیہ کی تعلیمات کی روشنی میں
سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
معراج کی رات حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام براق پر سوار ہوئے، جبرائیل علیہ السلام آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے آگے آگے پاپیادہ دوڑے، عرش سے فرش تک دونوں جہان آراستہ کیے گئے اور اٹھارہ ہزار عالم کو پیراستہ کر کے آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے سامنے لایا گیا۔ جبرائیل علیہ السلام (سدرۃ المنتہیٰ سے) آگے بڑھنے سے رُک گئے۔ اس سارے اہتمام کے باوجود حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اپنی نگاہ ذاتِ حق تعالیٰ سے نہ ہٹائی چنانچہ فرمانِ حق تعالیٰ ہے:
مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغٰی (سورۃ النجم۔17)
ترجمہ: بہکی نہیں (آپؐ کی) نگاہ نہ حد سے بڑھی۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس تمام اہتمام پر توجہ نہیں دی اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم سدرۃ المنتہیٰ کے مقام پر پہنچے تو وہاں صورتِ فقر کا مشاہدہ کیا اور مراتب ِ سلطان الفقر کی لذّت سے لطف اندوز ہوئے، فقرِ نورِ الٰہی سے باطن کو معمور فرمایا اور قابَ قوسین کے مقام پر اللہ تعالیٰ کے قرب و وصال سے مشرف ہو کر ذاتِ حق تعالیٰ سے ہم کلام ہوئے۔ پھر اس سے آگے بڑھ کر مقام ِ فقر فنافی اللہ میں داخل ہوئے، ملاقاتِ فقر سے غرق فنا فی اللہ مع اللہ ذات ہو کر رفیق ِفقر ہوئے اور محبت، معرفت، عشق، شوق، ذوق، علم، حلم، جود و کرم اور خلق سے متخلق ہوئے جیسا کہ فرما یا گیا ہے:
تَخَلَّقُوْا بِاَخْلَاقِ اللّٰہ
ترجمہ: اخلاقِ الٰہیہ سے متخلق ہو جاؤ۔
اس طرح کمالِ فقر پر پہنچ کر جب سارا دریائے توحید آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے وجود میں جمع ہو گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنی زبانِ دُرّفشاں سے اِس کا اظہا ر کرتے ہوئے فرمایا ’’فقر میرا فخر ہے اور فقر مجھ سے ہے‘‘۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم مجلسِ صحابہؓ میں پہنچے اور دریائے فقر سے حقیقتِ فقر موجزن ہوئی تو فقر ومعرفت کے احوال سن کر صحابہ کرامؓ کی ایک کثیر تعداد فقرِمحمدیؐ کی طلبگار ہو گئی جس پر اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ’’اے محمد(صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) آپ ہر وقت ان فقرا پر اپنی توجہ مرکوز رکھیں اور ان سے اپنی نگاہیں نہ ہٹائیں کہ یہ ہر وقت ذکرِ اللہ میں غرق رہنے والے لوگ ہیں۔‘‘ اس پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام شکر بجا لائے اور فرمایا: اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ! اب ہم اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی تعمیل سے دم بھر کے لیے بھی فارغ نہیں ہوں گے۔ (محک الفقر کلاں)
ابتدائے فقر تصور اسمِ اللہ ذات ہے۔ (محک الفقر کلاں)
اسمِ اللہ ذات کے تصور کا یہ سلک سلوک خاص فقر کی راہ ہے۔ (کلید ِ جنت)
جان لے کہ طلبِ فقر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی طلب ہے، صحابہ کرامؓ کی طلب ہے، اولیا اللہ کی طلب ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقر کے تین درجات ہیں۔ پہلا درجہ لَآ اِلٰہَ میں فنا ہونا ہے، دوسرا درجہ اِلَّا اللّٰہُ سے بقا حاصل کرنا ہے اور تیسرا اور انتہا کی طرف رہنمائی کرنے والا درجہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ ہے۔ اللہ تعالیٰ سے یگانہ فقیر (صاحب ِفقر) وہ ہے جو تمام غیر ماسویٰ اللہ سے بیگانہ ہے۔ جو شخص غیر اللہ اہلِ دنیا سے یگانہ ہے وہ اللہ تعالیٰ سے بیگانہ ہے، یگانگی اور بے گانگی دونوں ایک جگہ نہیں رہ سکتیں۔ جب تک فنا حاصل نہ ہو کوئی بقا تک نہیں پہنچ سکتا۔ (عین الفقر)
باطن میں راہِ فقر پر گامزن ہونا آسان کام نہیں کہ اس میں طبقاتِ ذات و صفات کا ہر مقام آفات سے پرُ ہے۔ اس راہ میں ہزاروں ہزار بلکہ بے شمارطالب گم ہو گئے۔ اس راہ میں ایسے صاحبِ توفیق مرشد کامل اکمل کی رفاقت ضروری ہے جو طالب کو ظاہر و باطن میں کسی وقت بھی اپنی نظر سے دور نہ ہونے دے۔ (محک الفقر کلاں)
نظر فقرش گنج قدمش گنج بر
فقر لایحتاج شد صاحب ِ نظر
فقر بگذرد از ہر مقامِ خاص و عام
شرط شرح فقر را کردم تمام
عین با عین است عین از عین یافت
عین را با عین عارف عین ساخت
ترجمہ:۱۔ فقر کی نظر بھی خزانہ ہوتی ہے اور اس کے قدموں میں بھی خزانہ ہوتا ہے۔ جسے مرتبۂ فقر حاصل ہو جائے وہ لایحتاج اور صاحبِ نظر بن جاتاہے۔
۲۔ اگر میں مراتبِ فقر کی شرح بیان کروں تو اس کا خلاصہ یہ ہے کہ فقر ہر خاص و عام مقام سے گزر جانے کا نام ہے ۔
۳۔ فقر عین کے ساتھ عین ہونے اور عین سے عین کو پانے کا نام ہے ۔ جو عارف عین کو عین سے پا لیتا ہے وہ خود بھی عین بن جاتا ہے۔(نورالہدیٰ کلاں)
جان لے کہ فقر کے تین حرف ہیں: ف ق ر۔ ’ف‘ سے فیض و فضل بخش اور فیاضِ حق، ’ق‘ سے قیامت کو دِل سے فراموش نہ کرے، نفس پر قوی و قادر ہو قناعت و قربِ اللہ سے اور حرف ’ر‘ سے رتبہ اختیارنہ کرے بجز رضائے حق کے۔ (محک الفقر کلاں)
جان لو کہ فقرِمحمدی اور معرفتِ توحیدِ الٰہی ہی مکمل طاعت و بندگی ہے جبکہ مرتبۂ دنیا اور عز وجاہِ دنیا سراسر مردار اور گندگی ہے کیونکہ فقیری اور درویشی انبیا کی سنت ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقر کی ابتدا اشک ہے اور فقر کی انتہا عشق ہے ۔ فقر کی ابتدا تصور ہے اور فقر کی انتہاتصرف ہے۔ (عین الفقر)
فقر دانی چیست؟ دائم در لاھوُت
فقر را ہر دم بود بہتر سکوت
ترجمہ: کیا تو جانتا ہے کہ فقر کیا ہے؟ ہمیشہ لاھوت میں رہنا۔ فقر میں ہر وقت سکوت کی حالت میں رہنا بہتر ہے۔ (عین الفقر)
فقر شاہے ہر دو عالم بے نیاز و باخدا
احتیاجش کس نہ باشد مدِّنظرش مصطفیؐ
ترجمہ: فقر بادشاہ ہے جو خدا کے قرب میں ہونے کی بنا پر دونوں جہان سے بے نیاز ہے۔ اسے کسی کی احتیاج نہیں کہ وہ ہر وقت حضورِ اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے مدِّ نظر رہتا ہے۔ (محک الفقر کلاں)
فقر از نور است نور از نور شد
قلب قالب نور و جان مغفور شد
ترجمہ: فقر نور سے ہے اس لیے خود بھی نور ہے۔ اس نور کے طفیل قلب و قالب نور ہو گئے اور وجود مغفور ہو گیا۔ (قرب ِ دیدار)
فقر سرّی از خدا اسرار راز
با حضوری قلب قالب با نماز
ترجمہ:فقر اللہ کے رازوں کا راز ہے جو قلب و قالب کو حضوری والی نماز سے مشرف کر دیتا ہے۔(قرب ِ دیدار)
فقر کے مراتب سے وہی شخص واقف ہوتا ہے جو فقر تک پہنچا ہو، جس نے فقر کی لذت چکھی ہو، فقر اختیار کیا ہو اور سلطان الفقر کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہو۔ (اسرارِ قادری)
پس فقر حق ہے اور دنیا باطل ہے۔(کلید التوحید کلاں)
فقر اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کا محتاج نہیں ہوتا۔(محک الفقر کلاں۔ عین الفقر)
اگر تجھے فقر کی نگاہ حاصل ہے تو اللہ کے دیدار کی طرف رخ کر۔ ورنہ اہل ِ دیدار اور اہل ِفقر کا گلہ اور ان کا انکار مت کر کیونکہ ایسا کرنا تیرے لیے دونوں جہان میں ذلت و خواری کا باعث ہو گا۔ (قربِ دیدار)
حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے کہ فقر جہادِ اکبر ہے کہ یہ نفس کے خلاف جہاد ہے، کفار کے ساتھ جو جہاد ہے وہ چھوٹا جہاد ہے اور ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہا د کی طرف آ رہے ہیں۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کا فرمان ہے ’’ہر نبی کا ایک حرفہ (پیشہ، ہنر، کسب) ہے اور میرے دو حرفے ہیں، ایک حرفہ فقر کا اور دوسرا جہاد کا۔ جس نے ان سے محبت کی اس نے مجھ سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھااس نے مجھ سے بغض رکھا۔‘‘ (محک الفقر کلاں)
فقر کیا چیز ہے؟ فقر کسے کہتے ہیں اور کہاں سے پیدا ہوتا ہے؟ فقر نورِ الٰہی سے پیدا ہوتا ہے کیونکہ تمام عالم کا ظہور نورِ فقر سے ہوا ہے۔ فقر ہدایت ہے، فقر نورِ حق کی ایک صورت ہے جو اس درجہ خوبصورت ہے کہ دونوں عالم اس کے شیدا اور اس پر فریفتہ ہیں لیکن فقر کسی پر توجہ نہیں کرتا مگر حکمِ الٰہی اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی اجازت سے۔ (توفیق الہدایت)
فقر کے پاس تمام الٰہی خزانے ہوتے ہیں۔ دنیاوی خزانے کو زوال ہے اور دنیاخواب و خیال ہے۔ فقر کا خزانہ معرفت اور توحیدِ لازوال ہے جو بعینہٖ وصال ہے۔ دنیاوی لذّت چند روزہ ہے، آخر معاملہ اللہ تعالیٰ ہی سے پڑتا ہے۔ (توفیق الہدایت)
باھوؒ فقر کیا ہے؟ فقر ایک حد سے زیادہ خوبرو صورت ہے جو صحیح نسخہ ہے۔ یہ صورتِ فقر غیر ما سویٰ اللہ سے پا ک ہے۔ دونوں جہان اس کو دیکھنے کے خواہشمند اور مشتاق ہیں۔ جس نے اس کو دیکھا اسے حق حاصل ہو گیا۔ (محبت الاسرار)
جو کوئی فقرِمحمدیؐ کو خالی سمجھتا ہے وہ اس دنیا سے خالی ہاتھ جاتا ہے ۔ (امیر الکونین)
جان لو کہ فقر پر ثابت قدم وہی رہتا ہے جس کی نظر میں (اللہ کے) غیبی خزانے دنیاوی بادشاہ کے خزانوں سے کہیں زیادہ قیمتی ہوں۔ (کلید التوحید کلاں)
اے عزیز! راہِ فقر میں غیر ماسویٰ اللہ تو جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ راہزن ہے۔ (کلید التوحید کلاں)
فقر دائمی حیات ہے۔ (نور الہدیٰ کلاں)
فقر خدا کا سِرّ ہے۔ (محبت الاسرار)
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ پنجابی ابیات میں فرماتے ہیں :
خام کی جانن سار فقر دی، جیہڑے محرم ناہیں دِل دے ھوُ
آب مٹی تھیں پیدا ہوئے، خامی بھانڈے گِل دے ھوُ
لعل جواہراں دا قدر کی جانن، جو سوداگر بِل دے ھوُ
اِیمان سلامت سوئی لے وَیسن باھوؒ، جیہڑے بھج فقیراں مِلدے ھوُ
طالبانِ ناقص جو دل کے محرم نہیں بنے وہ راز آشنا نہیں ہیں اس لئے راہِ فقر کی انہیں خبر تک نہیں ہے۔ ان کی مثال تو مٹی کے کچے برتنوں کی سی ہے جو صرف پانی اور مٹی سے بنائے گئے ہیں اور آتشِ عشق کی بھٹی میں انہیں پختگی حاصل نہیں ہوئی۔ یہ تو بلور اور کانچ کے سوداگر ہیں اس لئے توحید و معرفت کے لعل و جواہرات (طالبانِ مولیٰ) کی قدر و منزلت نہیں جانتے (کیونکہ جوہر شناسی تو جوہری کا کام ہے)۔ اس دنیا سے صرف وہی لوگ ایمان سلامت لے کر جائیں گے جو دنیا میں فقرا (صاحب ِفقر) کی ہم نشینی اختیار کرتے ہیں۔
راہ فقر دا پرے پریرے، اوڑک کوئی نہ دِسیّ ھوُ
ناں اُوتھے پڑھن پڑھاون کوئی، ناں اُوتھے مَسلے قِصّے ھوُ
ایہہ دُنیا ہے بُت پرستی، مت کوئی اِس تے وِسّے ھوُ
موت فقیری جیں سِر آوے باھوؒ، معلم تھیوے تِسّے ھوُ
راہِ فقر بہت دور ہے اور اس کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی۔عالم ِ احدیت میں جہاں فقر کی تکمیل ہوتی ہے نہ تو وہاں علم اور تعلیم ہے اور نہ ہی شرعی مسائل اور قصے کہانیاں ہیں۔ یہ دنیا تو بت پرستی کی دنیا ہے اس پر تو کوئی بھی بھروسا نہ کرے۔ فقیری مُوْتُوْا قَبْلَ اَنْ تَمُوْتُوْا کے بعد حاصل ہوتی ہے۔ فقیری نہ تو عالمانہ گفتگو میں ہے نہ مسئلہ مسائل اور قصہ خوانی میں ہے بلکہ یہ تو اﷲ کے ساتھ عشق اور غرق فی التوحید ہونے میں ہے اور جس کو یہ حاصل ہوتی ہے اسی کو اس کے حال اور قدر کے بارے میں معلوم ہوتا ہے۔
کیا فقر وراثت ہے؟
فقر ایک فیضِ تربیت ہے۔ یہ ایک پاکیزہ جذبہ ہے اور کسی فرد، جماعت یا خاندان کی میراث نہیں ہے۔ راہ ِ فقر کے مسافر وہ لوگ ہوتے ہیں جنہیں نہ تو دنیا کی طلب ہوتی ہے نہ آخرت کی بلکہ یہ طالبِ مولیٰ ہوتے ہیں اور ان کی نظر اور دِل ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے اللہ سے غافل نہیں ہوتے اور ہر وقت ذکر اور تصور میں رہتے ہیں۔ یہ لوگ اپنی جان، مال، رشتوں اور نفسانی خواہشات سے منہ موڑ کر صرف اللہ کی طرف متوجہ رہتے ہیں۔ یہ خواص کا گروہ ہے اور ان کی حیثیت پارس کی سی ہے جو لوہے کو سونا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں یعنی فاسق اور فاجر شخص ان کے پاس آئے تو اسے بھی نورِ ایمان سے منور کر دیتے ہیں۔ انہی کی وجہ سے دنیا قائم ہے اور دنیا کی ساری نعمتیں اور برکتیں ان ہی کے طفیل دنیا والوں کو مل رہی ہیں اور ان ہی کے صدقہ میں اہل ِ دنیا کو رزق دیا جاتا ہے۔ قربِ قیامت میںان لوگوں کو دنیا سے اٹھالیا جائے گا اور دنیا فتنہ و فساد کا شکار ہو جائے گی۔
حضرت سخی سلطان باھو رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
فقیری کا تعلق سیدّ یا قریشی یا مشہور ہونے سے نہیں بلکہ اس کا تعلق اللہ کی معرفت سے ہے، جسے اللہ چاہے عطا فرمائے۔ (نورالہدیٰ خورد)
فقر بکس ورثہ ہفت کرسی نیست
در گفتگو حقیقت پرسی نیست
ترجمہ: فقر کسی کی سات پشتی میراث نہیں ہے اور نہ ہی گفتگو سے فقر کی حقیقت حاصل ہوسکتی ہے۔ (عین الفقر)
فقر موجِ دریا کی طرح اللہ تعالیٰ کی ایک عطا ہے۔ فقیر اس موج کے حصول کی خاطر انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ کب اللہ انہیں یہ بخشے۔ (عین الفقر)
فقر اور شریعت
حضرت سخی سلطان باھوُ رحمتہ اللہ علیہ باطنی تربیت کے دوران شریعت پر کار بند رہنے کے سختی سے پابند ہیں۔ آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
فقر کیا ہے؟ فقر حضرت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا ورثہ ہے جس کی بنیاد اور ابتدا بھی شریعت ہے اور انتہا بھی شریعت ہے۔ پختہ کامل مرد وہ ہے جو کسی بھی حالت میں شریعت سے باہر ہرگز قدم نہ رکھے خواہ وہ اللہ کے تمام رازوں سے واقف اور یومِ الست سے ہی سکر و مستی، قبض و بسط اور شوق و عشق کے احوال میں کیوں نہ ہو۔ اگر وہ شریعت سے باہر قدم رکھے گا تو اس کے تمام خاص مراتب سلب کر لیے جائیں گے۔ (عین الفقر)
( ماخوذ از کتاب ’’شمس الفقرا‘ ‘ تصنیف ِلطیف سلطان العاشقین حضرت سخی سلطان محمد نجیب الرحمن مدظلہ الاقدس)
فقر امانت الہیہ ہے